Sunday, June 9, 2013

تصویر کا دوسرا رخ


عرب ممالک میں رہنے والوں میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہو جس نےعربوں کے نسلی تعصب کو محسوس نہ کیا ہو ۔لیکن یہ بڑائی، یہ فخر امریکی یا برٹش پاسپورٹ کے سامنے کیوں گر جاتا ہے اس کی سمجھ مجھے کبھی نہیں آسکی ہے ۔ آپ سعودی عرب میں بیس سال قیام کرلیں، لہجہ، رہن سہن اور لباس سب کچھ ان کے مزاج کے کے مطابق بھی ڈھال لیں لیکن پھر بھی معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں کر سکتے جو ایک عربی النسل کو حاصل ہے۔ اگر آپ ایک عربی خاندان کے نوے سال کے ایک ایسے بزرگ ہیں جو دماغی طور پر فوت ہوچکا ہے لیکن مشینوں کے ذریئے زندہ رکھا جا رہا ہے توآپ کے خاطر لاکھوں ڈالر کا خرچ بھی برداشت کیا جائے گا لیکن اگر آپ کی شہریت کسی دوسرے ملک کی ہے تو پھر کوئی آپ کے کسی ناگزیر آپریشن کیلئے بھی پیسہ نہیں دے گا۔ پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران ایک عربی کو ہمیشہ ایک عجمی کے اوپر فوقیت دی جائے گی۔ صرف فوقیت ہی نہیں دی جائے گی بلکہ آپ کو دوسرے درجے کا شہری ہونے کا احساس بھی دلایا جائے گا۔ زندگی میں ترجیحات کو ہی لے لیں ایک عربی کی زندگی کا خواب کیا ہوتا ہے؟؟؟؟ امریکہ کے کسی ہوٹل میں قیام یا پھر کسی بڑے شاپنگ مال سے خریداری۔۔عالیشان گھر اور گاڑی۔۔۔۔ اگر کسی چیز کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے تو وہ کسی بھی پرتعیش گاڑی کے نئے ماڈل کا انتظار ہے۔۔۔عربوں کو ان ساری باتوں سے کیا غرض کہ تیسری دنیا کے کیا مسائل ہیں؟؟، یہودو نصاری اسلامی دنیا کے خلاف کس طرح نمبرد آزماہیں۔؟؟؟؟ سودی اور استعاری نظام کے ذریئے، کس طرح عربوں کی ساری دولت کو سینچا جا رہا ہے؟  اگر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ عربوں نے اپنے ملکوں کی اقتصادی طاقت کو برقرار رکھنے کیلئے کیا منصوبہ بندی کی ہے تو پاکستان میں لاٹری کے ذریئے راتوں رات امیر ہونے والے شہری کی طرز زندگی کو دیکھ لیں۔۔۔لیکن ایک عجب معاملہ ہے، دنیا میں جہاں کہیں کسی مسلمان علاقے میں ظلم زیادتی شروع ہوجائے تو یہ عرب مسلمان ہی ہیں جو سب سے پہلے وہاں پہنچتے ہیں۔ افغانستان کا محاذ ہو یا بوسنیا کے مسلمانوں پر جبر کے دن، چیچنیا کے مسلمانوں کی زبوں حالی ہویا عراق میں امریکی فوجوں کی آمد۔ سب سے ہراول دستہ ان عرب مسلمانوں کا نظر آئے گا۔
یہ امریکہ کے افغانستان کے اوپر چڑھائی کے ابتدائی دن تھے۔ دبئی کے شیخ راشد المکتوم کی این جی او نے قندھار کے باہر پناہ گزینوں کیلئے بڑا اہتمام کر رکھا تھا۔ایک مکمل بستی بسا رکھی تھی۔ جو بھی نئے پناہ گزین آتے،ان کا اندراج کیا جاتا، ان کو خیمہ الاٹ کیا جاتا اور ایک ماہ کا راشن مفت فراہم کر دیا جاتا۔ سارا نظام ایک  شیخ عبدالرحمن کے ہاتھ میں تھا۔۔۔بلند قد، پوری داڑھی، لمبا سفید چغا۔ بڑا ہی نیک اور غمگسار قسم کا انسان تھا۔۔۔۔ مٹی میں لپڑے، گندے مندے بچوں کو گود میں اٹھا لیتا تھا ان کو پیار کرتا، ٹافیاں تقسیم کرتا، اپنے ہاتھ سے خیموں کی تنصیب کے کام میں ہاتھ بٹاتا۔۔۔۔کسی طرح ہمارے ساتھ شناسائی ہو گئی تو میں اپنی ڈسپنسری چھوڑ کر کچھ دن کیلئے اس کے کیمپ کے ساتھ منسلک ہوگیا۔۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں دونوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا۔دلچسپ انسان تھا، ہر وقت چہرے پر ایک مسکراہٹ آباد رہتی تھی۔ہر بات میں سے مزاح کا پہلو ڈھونڈ لیتا تھا۔ رمضان کے دن تھے اور روزانہ شیخ کے ہاں افطاری پر مہمان بنتے۔۔ایک دن میں نے بھی افطاری تیار کی تھی۔۔۔سموسے، پکوڑے۔۔(اور ہاں پکوڑوں کیلئے بیسن کیسے ڈھونڈا؟ یہ ایک الگ داستان ہے) فروٹ چاٹ، کٹلس، باداموں اور ملائی والی کجھوریں۔۔۔ شیخ کیلئے سب کچھ بالکل نیا تھا بہت تعریف کی۔۔۔ ایک دن اچانک شیخ دبئی کیلئے روانہ ہوگیا۔ میں نے اس کے سیکرٹری سے پوچھا کیا کوئٹہ سے دبئی کیلئے براہ راست فلائٹس جاتی ہیں؟ ۔۔۔ اس نے بتایا فلائٹس کا تو پتا نہیں شیخ عبدالرحمن کا تو اپنا جہاز ہے۔ ارب پتی انسان ہے۔۔۔ اور میں اس کی بات سن کر سناٹے میں آگیا۔۔ کیا سادہ مزاج اور درویش انسان تھا۔۔۔۔اور شیخ عبدالرحمن ایک عربی النسل تھا
میم ۔ سین

No comments:

Post a Comment