Tuesday, March 29, 2016

بے حسی


بات کچھ تلخ ہے۔لیکن حقیقت یہی ہے
....اس دن اگر بنگلہ دیش سے فتح کا جشن منانے کی بجائے پشاور میں سترہ افراد کی ہلاکت کا سوگ منایا ہوتا تو شائد لاہور کا سانحہ رونما نہ ہوا ہوتا
جن دنوں میں پشاور اور کوئٹہ کے ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل کر افغان پالیسی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔  لاہور اور کراچی کی عوام نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہوتا تو شائد گلشن اقبال لہو میں رنگا نہ جاتا
جس دن پہلا ڈرون حملہ ہوا تھا اس دن پوری قوم نے مل کر یوم سیاہ منایا ہوتا تو اقبال ٹاؤن کا پارک شہ سرخیوں کا مرکز نہ بنتا
بات بے حسی کی ہے۔اجتماعی بے حسی کی ۔ آج حقائق سے نظریں چرائیں گے تو کل سانحے میرے گھر کا رستہ ڈھونڈ نکالیں تو اس میں تعجب کیسا ؟ اس پہ افسوس کیوں
آج گوادر میں سولہ ارب ڈالر کی لاگت سے ہسپتال بن گیا ہے۔لیکن کیا وہاں آج سے پہلے کوئی مخلوق آباد نہیں تھی؟ 
بلوچستان کی کئی تحصلیں آج بھی ایسی ہیں جن سے رابطہ رکھنے کیلئے کوئی سڑک موجود نہیں ہے۔
ملتان سے آگے سفر کریں تو لگتا ہے پنجاب کا علاقہ ختم ہوگیا ہے۔
پشاور سے باہر نکل  جائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے نادر شاہ چند ماہ پہلے گزر کر گیا ہے۔
جہاں سے قبائلی علاقوں کی حدود شروع ہوتی ہے۔ وہاں سڑکیں اپنا وجود روک لیتی ہیں۔ بجلی کے کھمبے اپنا رخ موڑ لیتے ہیں۔ سکول کالج تو دورکی بات ان کو کبھی کسی نے صاف پانی بھی نہیں پوچھا۔
جو قوم ترقی کا معیار صحت اور تعلیم کی بجائے میٹرو اور اونچی عمارتوں کو سمجھنا شروع کر دے۔ ۔تہذیب کا معیار فاسٹ فوڈ کھانے اور شاپنگ مال پر خریداری کو سمجھنے لگے ۔۔جہاں انصاف اور مساوات کے قتل سے زیادہ کرکٹ ہارنے کا غم منایا جاتا ہو
 تو اس قوم کے اندر دہشت گردوں کا داخل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا
میم سین

No comments:

Post a Comment