سچی بات ہے دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ملک عزیز آئے روز کسی نئےطوفان میں گھِراہوتا ہے۔ دل کُڑھتا ہے کسی نہ کسی آلاؤ میں، ملک کو جلتا دیکھ کر ۔لیکن میں سوچتا تھا کہ ان تمام نامسائد حالات میں اوربے بسی کے لمحات میں آخر وہ کون سا ہاتھ ہے جو ہمیں استحکام بخش رھا ہے۔جس دور میں ہماری اقدار مجروح ہو رہی ہیں ،کن کی دعائیں ہیں کہ لرزتی لڑکھراتی معیشت کی رمق باقی ہے؟ زندگی پھر بھی متحرک ہے
ہماری سب سے بڑی متاع اور ہماری معیشت کا اصل سہارا تارکین وطن ہیں۔ جب تک دیار غیر میں بسنے والے خوش ہیں اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں کسی کو پاکستان کے سیاسی اور معاشی استحکام کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔حالات کیسے بھی ہوں۔ حکومت کسی کی بھی ہو۔ جمہوریت کا راگ الاپاجا رھا ہو یا فوجی حکومت اپنے پنجے دکھا رہی ہو۔ مغربی دنیا ہم سے خوش ہے یا پھر ہمیں آنکھیں دکھا رہی ہے۔ کوئی نیا عالمی بلاک بننے جا رہا ہے یا پھر بڑی قوتوں کے مفادات تبدیل ہورہے ہیں۔جب تک دیار غیر میں رہنے والے خوش ہیں ، پاکستانی شہریوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہم متضاد کیفیتوں کی آماجگاہ ہیں لیکن ہمارے دیار غیر میں رہنے والے وحشت میں بھی زندگی آباد رکھتے ہیں۔ہم شکستہ ارمانوں سے پریشان حال لوگ ہیں لیکن یہ لوگ انتشار میں بھی ایک صدا بلند رکھتے ہیں۔ہم پاکستان سے محبت کا فقط دعوی کرتے ہیں لیکن یہ اجنبی دیس کے باسی حقیقت میں محبت کا دم بھرتے ہیں۔ یہ لوگ اس کی زمین کی خوشبو کو سونگھ سکتے ہیں دھڑکن کو سن سکتے ہیں۔جتنا عرصہ یہ لوگ اپنی سر زمین سے دور رہتے ہیں ۔ وطن کی مٹی سے محبت کی تڑپ اسی قدر زیادہ بھر جاتی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں۔جن کے دلوں میں چاہت کے فردوسی تخیل کو دھڑکتا ہوا محسوس کیاجاسکتا ہے۔ملک عزیز میں آنے والے ہر بھونچال پر مثل بسمل تڑپتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔جب ملک عزیز کی فضائیں دردناک نوحوں سے گونج رہی ہوتی ہے تو ان کی آتمائیں سسک رہی ہوتی ہیں۔ ان کے دل گھائل ہوچکے ہوتے ہیں۔
لیکن سچی بات ہے ہم ا پنا وقار اپنے ہاتھوں لٹا رہے ہوتے ہیں لیکن یہ دیار غیر میں بسنے والوں کا درد ہے جو ہمیشہ محبت میں سرشار رہتا ہے۔خدا کرے ۔۔دیار غیر کے رہنے والوں کا اپنے وطن سے جڑاشہد کی طرح میٹھا اور خوشبو کی طرح لطیف احساس ہمیشہ قائم رہے۔آمین
میم سین
ہماری سب سے بڑی متاع اور ہماری معیشت کا اصل سہارا تارکین وطن ہیں۔ جب تک دیار غیر میں بسنے والے خوش ہیں اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں کسی کو پاکستان کے سیاسی اور معاشی استحکام کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔حالات کیسے بھی ہوں۔ حکومت کسی کی بھی ہو۔ جمہوریت کا راگ الاپاجا رھا ہو یا فوجی حکومت اپنے پنجے دکھا رہی ہو۔ مغربی دنیا ہم سے خوش ہے یا پھر ہمیں آنکھیں دکھا رہی ہے۔ کوئی نیا عالمی بلاک بننے جا رہا ہے یا پھر بڑی قوتوں کے مفادات تبدیل ہورہے ہیں۔جب تک دیار غیر میں رہنے والے خوش ہیں ، پاکستانی شہریوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہم متضاد کیفیتوں کی آماجگاہ ہیں لیکن ہمارے دیار غیر میں رہنے والے وحشت میں بھی زندگی آباد رکھتے ہیں۔ہم شکستہ ارمانوں سے پریشان حال لوگ ہیں لیکن یہ لوگ انتشار میں بھی ایک صدا بلند رکھتے ہیں۔ہم پاکستان سے محبت کا فقط دعوی کرتے ہیں لیکن یہ اجنبی دیس کے باسی حقیقت میں محبت کا دم بھرتے ہیں۔ یہ لوگ اس کی زمین کی خوشبو کو سونگھ سکتے ہیں دھڑکن کو سن سکتے ہیں۔جتنا عرصہ یہ لوگ اپنی سر زمین سے دور رہتے ہیں ۔ وطن کی مٹی سے محبت کی تڑپ اسی قدر زیادہ بھر جاتی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں۔جن کے دلوں میں چاہت کے فردوسی تخیل کو دھڑکتا ہوا محسوس کیاجاسکتا ہے۔ملک عزیز میں آنے والے ہر بھونچال پر مثل بسمل تڑپتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔جب ملک عزیز کی فضائیں دردناک نوحوں سے گونج رہی ہوتی ہے تو ان کی آتمائیں سسک رہی ہوتی ہیں۔ ان کے دل گھائل ہوچکے ہوتے ہیں۔
لیکن سچی بات ہے ہم ا پنا وقار اپنے ہاتھوں لٹا رہے ہوتے ہیں لیکن یہ دیار غیر میں بسنے والوں کا درد ہے جو ہمیشہ محبت میں سرشار رہتا ہے۔خدا کرے ۔۔دیار غیر کے رہنے والوں کا اپنے وطن سے جڑاشہد کی طرح میٹھا اور خوشبو کی طرح لطیف احساس ہمیشہ قائم رہے۔آمین
میم سین
No comments:
Post a Comment