Sunday, February 1, 2015

سلگتے لوگ


سردیاں تو ہر سال آتی ہیں لیکن سردیوں کا وہ مزہ اب کہاں جو بچپن میں تھا۔ شام ہوتے ہی انگھیٹی میں کوئلے رکھ کر ان کو پرانے اخبارلے کر آگ دکھائی جاتی تھی اور پھر جب کوئلے پوری طرح دھکنا شروع ہوجاتے تو انگیٹھی کو اٹھا کر کمرے میں رکھ دیا جاتا اور وہ انگیٹھی سارے گھر والوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی۔ کوئی اس کے پاس بیٹھا مونگ پھلی کھا رھا ہے تو کسی کے ہاتھ میں چلغوزے ہیں۔ کوئی چائے کے کپ کے ساتھ دل بہلا رھا ہے۔تو کوئی لڈو کی بازی سجا کر بیٹھا ہے۔ ابا جی اکثر اخبار کا تفصیلی مطالعہ اس انگھیٹی کے قریب بیٹھ کر ہی کیا کرتے تھے۔ انگھیٹی کے گرد رونق اس دن اور بھی بڑھ جاتی تھی جس دن کشمیری چائے کیلئے اہتمام ہوتا تھا۔ 

اس دن اس انگھیٹی کے پاس میرے سوا کوئی موجود نہیں تھا۔ مجھے یاد نہیں میں نے کسی کو ایسا کرتے دیکھا تھا یا پھر یہ میری اپنی سوچ کا کرشمہ تھا۔ جب کوئلے اپنے اختتام کے قریب تھے تو میں نے چند آلو لا کر اس میں ڈال دیئے۔ کچھ ہی دیر میں ان کی سوندھی سوندھی خوشبو نے کمرے کو مہکا کر رکھ دیا۔ میں سکول کا کام کرنے بیٹھ گیا جب مجھے لگا اب صرف راکھ باقی رہ گئی ہے تو بھنے ہوئے آلوؤں کو نکالنے کیلئے چمٹا ڈھونڈنے نکلا لیکن ا پنی ساری کوشش کے باوجود میں اسے ڈھونڈ نہ پایا کہ امی نے چمٹا کہا ں چھپارکھا ہے۔ان سے پوچھنے کی ہمت مجھ میں اس لئے نہیں ہوئی کہ کس کس سوال کا جواب دوں گا۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ اب صرف راکھ باقی ہے تو میں نے ہاتھ ڈال کر راکھ میں سے آلو ڈھونڈنے کی کوشش کی ۔اچانک میری انگلی راکھ میں دبے ایک جلتے کوئلے سے ٹکرائی اور میں نے چیخ مار کر ہاتھ کھینچا تو کئی کوئلے ہاتھ سے ٹکڑا چکے تھے۔ پھوپھو ر خسانہ کہیں پاس ہی تھیں ۔ بھاگی آئیں اور پہلے تو پانی سے ہاتھ دھویا پھر ٹوتھ پیسٹ نکال کر سارے ہاتھ پر لگا دی۔جب میری تکلیف کچھ کم ہوئی تومجھے سمجھانے لگیں بیٹا راکھ کے اندر دبے کوئلے اگر یونہی سلگتے رہیں تو یہ راکھ میں فنا ہوجاتے ہیں لیکن اگر ہوا چلے تو پھر اس کی چنگاریاں سب کچھ بھسم کر دیتی ہیں۔۔کچھ لوگ بھی سلگتے کوئلے ہوتے ہیں ۔اوپر سے سرد اور اندر سے دھکتے ہوئے۔ لیکن اگرکبھی حالات کی آندھی اس کی چنگاڑیوں کو اڑا دے توگھر بھر کو جلا دیتے ہیں۔ میں ابھی بہت چھوٹا تھا مجھے کیا سمجھ وہ کیا کہہ رہی تھیں۔ 

اگلی صبح ہاتھ پر پانی والے چھالے نکل آئے۔۔ ٹوٹکوں سے زخم خراب ہوگیا ۔ جب ٹھیک ہوا توہمیشہ کیلئے نشان میرے ہاتھ پر چھوڑ گیا تھا۔ جس میں کبھی کبھی بہت کجھلی ہوا کرتی تھی۔

سردیاں تو اس بار بھی بڑے لمبے عرصے کے لئے آئیں تھیں۔لیکن اس بار سردیوں میں نہ تو کوئلوں کی مہک تھی اور نہ وہ بے فکری والی زندگی کے مزے۔ دن بھر سورج غائب رہتا تو شام ہوتے ہی سردی کی شدت میں بلا کا اضافہ ہوجاتا۔جتنی دیر بجلی موجود ہوتی تو ہیٹر کی گرمی کچھ سہارا بنتی ورنہ پھر وہی رضائیاں اور کمبل۔ اب مکان پختہ ہوگئے ہیں اس لئے ان میں کوئلوں والی انگھیٹی نہیں رکھی جاتی۔اور کچھ کوئلے جلانے کا رواج بھی کم ہوگیا ہے۔ 

اس دن بھی جب میں رضائی میں گھسنے کا ارادہ رکھتا تھا تو خالہ صغراں ملنے کیلئے آگئیںْ۔ ننہیال کی طرف سے رشتہ دار ہونے کی وجہ سے وہ میری تو خالہ لگتی ہی ہیں لیکن سارے محلے میں خالہ کے نام سے مشہور ہیں۔میاں کی محلے میں کریانے کی دکان ہے گھر کا مشکل سے ہی گزارہ ہوتا ہے۔ میرا ان سے تعلق زیادہ گہرا اس وقت ہوا تھا جب ان کی بڑی بیٹی کلثوم کو ایکسیڈنٹ کے بعد میرے کلینک پر لایا گیا۔ٹانگ ٹوٹی تو نہیں تھی لیکن پھر بھی زخم ٹھیک ہونے میں مہینہ لگ گیا تھا۔اور اس دوران خیریت معلوم کرنے کیلئے کئی دفعہ ان کے گھر آنا جانا ہوا تھا۔کلثوم پانچ بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔اس سےملنے کے بعدمجھے اس کی طبیعت اور مزاج بہت پسند آیا تھا۔کم عمری میں ایک متین اور پروقار لڑکی۔اس کے بات کرنے کے اندازمیں خود اعتمادی تھی۔ بہت کم گو لیکن اس کی سنجیدگی نے اسکی شخصیت کو ایک خاص امتیاز بخشا تھا۔

خالہ نے پہیلیاں بھجوانے کی بجائے سیدھی بات کی۔ بیٹا کلثوم کا رشتہ طے کر دیا ہے۔ جلد ہی شادی کی تاریخ بھی طے کر لی جائے گی۔ میں تمہارے پاس آئی تھی کہ تمہیں تو ہمارے گھر کے حالات کا اندازہ ہے۔ کلثوم تمہاری بھی بہن ہے کچھ ہاتھ بٹ جائے تو تمہارا احسان ہوگا۔ میں نے تسلی دی خالہ آپ فکر نہ کریں۔ مجھ سے جو ہوسکا میں تعاون کروں گا۔ ایک آدھ دن میں آپ سے ملتا ہوں

چند دن تو کلینک سے فرصت نہیں ملی ۔پھرایک شادی کی دعوت آگئی اس لئے ان کی طرف جانے کیلئے وقت نکال نہ سکا۔ لیکن اس دن موسم کچھ ابر آلود تھا اسلئے کلینک سے جلدی فارغ ہوگیا ۔فراغت کو غنیمت جان کر خالہ صغراں کے گھر پہنچا تو دروازہ کلثوم نے کھولا۔ اپنا ڈوپٹہ سنبھالتے ہوئے مجھے سلام کیا اور دروازہ کھول کر ایک طرف کھڑی ہوگئی۔۔ سامنے والے کمرے سے خالہ صغراں بھی نکل کر آئیں اور مجھے ساتھ لیکر بیٹھک میں آگئیں۔ اماں ابا کا پوچھا، کلینک کاحال اور کچھ اپنے کندھے کے درد کے بارے میں ۔کچھ واپڈا والوں کو گالیاں دیں اور کچھ حکومت سے گلے شکوے۔۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میرے منع کرنے کے باوجود اونچی آواز میں کلثوم کو آواز دی کہ جلدی سے چائے بنا لے۔ اور ساتھ میں انڈے بھی ابال لینا ، سردی بہت ہے۔ ابھی میں اپنی آمد کے مقصد سے آگاہ کرنے والا تھا کہ خالہ نے یہ بتاکر مجھے حیران کر دیا کہ کلثوم کے ابا نے کلثوم کا رشتہ ملک اشفاق کے ساتھ کر دیا ہے۔

لیکن وہ توکافی ادھیڑعمر کا مرد ہے،جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس کے تو تین چار بچے بھی ہیں ۔

لیکن خالہ نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔ اس کی بیوی پچھلے سال فوت ہوگئی تھی۔صاحب حیثیت ہے۔ اچھی خاصی جائیداد کا مالک ہے۔بچے ہیں تو کیا ہوا ۔چند دن میں کلثوم ان کے ماحول میں گھل مل گئی تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔

آپ نے کلثوم سے بات کی ہے؟ میں نے پوچھا 

اس سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ۔ہم بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں ۔اب بھلا والدین اپنے بچوں کی بھلائی نہیں سوچیں گے تو اور کون سوچے گا۔ بانس کے درختوں کی طرح جوان ہورہی ہیں ساری۔ایک کی ذمہ داری سر سے اترے تو دوسروں کی بھی فکر شروع کریں

لیکن ایک بار اس سے اس کی مرضی کے پوچھ لینی چاہیئے تھی ۔میں نے پھر مداخلت کی 

لیکن خالہ نے جو بات طے کر لی تھی وہ اس سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کانام نہیں لے رہی تھی۔

سب کچھ اس کے سامنے ہے۔ اس کی مرضی اور کیا ہوسکتی ہے؟

جب انسان اس دنیا میں آتا ہے تو رونا اس کی زبان ہوتی ہے۔ وہ ہر جذبے کا اظہار رو کر کرتا ہے۔لیکن جوں جوں وہ بڑا ہوتا ہے وہ معاشرے کی ضروریات سیکھتا ہے ۔پہلے پہل وہ اپنی ضرورتوں کو لفظوں میں ڈھالتا ہے پھر اپنی خوشی اورغم کے اظہارر کیلئے نئے طریقے ڈھونڈتاہے۔۔۔کچھ ضرورتوں کا اظہار کیا جاتا ہے اورکچھ ضرورتوں کو محسوس کیا جاتا ہے۔یہ دو طرفہ معاملہ ہوتا ہے۔۔زندگی کی قدریں کیا ہیں؟ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟معاشرہ کون سے تقاضے کرتا ہے؟ شائد یہ سب رکاوٹیں انسانی ضرورتوں کو محتاج کر دیتی ہیں لیکن حصول تمنا کی خواہش کا اضطراب کسی بے چین روح کی طرح پھڑکتا رہتا ہے۔

اتنے میں کلثوم چائے لے کر اندر آئی تو میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جس پر کسی قسم کا کوئی تاثر دکھائی نہیں دے رھا تھا ۔اس بات کا اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ میں اسے دیکھ رھا ہوں لیکن پھر بھی اس نے نظر اٹھا کر میری طرف نہیں دیکھا۔جیسے اسے کچھ معلوم نہ ہو۔ چائے رکھی اور چلی گئی۔

میں ایک تخیل پرست انسان ہوں اور اپنے تصوارات کی دنیا میں کھویا رہتا ہوں لیکن جب میرے تصوارات ٹھوس حقائق سے ٹکڑا کر ٹوٹتے ہیں تو میرے فریب کے حلقے اور میرے یقین کا طلسم بھی میرا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔۔جب میری کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا تو میں نے کچھ رقم خالہ کے حوالے کی اور واپسی کی اجازت چاہی۔

صحن سے گزرتے ہوئے کلثوم کو لکڑیوں کے چولہے پر جھکے پایا۔ چائے دینے کے دوران شائد آگ بجھ گئی تھی اور اب اپنا پورا زور لگا کر پھونکیں مار کر دوبارہ آگ جلانے کی کوشش کر رہی تھی۔یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی زندگی میں کہیں سے محبت کے نام پر یادیں پالتا ہے۔اس یاد کے ساتھ اس کی وابستگیاں ہوتی ہیں ۔اس کی تنہائی کے ساتھ ہوتے ہیں۔جب کوئی اس سے وہ سرمایہ چھینے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی ساری دلکشی ساری دلآویزی ایک طرف ،وہ ایک گھائل آتما میں ڈھل جاتا ہے۔ایک ایسی آتما جو دائمی جدائی کی داستان سننے کیلئے تیار نہیں ہوتی اور انتہا پسندی کی اس راہ کا انتخاب کرتی ہے جہاں سے اس ذہنی اور روحانی کرب کے دریا کا سامنا شروع ہوتا ہے جس کا کوئی کنا رہ نہیں ہوتا۔۔ ایک لمحے کو دل میں آیا کہ اس کے پاس جاؤں اور اس سے بات کروں اس کی مرضی چاہوں ۔لیکن وہ پھونکیں مار مار کر ہلکان ہورہی تھی۔ مجھے اپنے ہاتھ پر شدت سے خارش محسوس ہوئی میں اسے کھجلاتا ہوا باہر نکل گیا۔

میں نے اس کے ابا سے بھی بات کی ۔دبے لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کی دنیا میں رہ کر دنیا کے اصولوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔سماج کے اصولوں سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتی ہیں۔کوئی اس رشتے کو فطری اتصال تسلیم نہیں کرے گا۔سچی خوشی کے حصول کیلئے جن سیمابی خواہشوں کی تسکین طلب کی جاتی ہے اس رشتے میں ان کو یکسر نظر انداز کیا جارھا ہے۔

اس کے والدین بضد تھے لیکن مجھے کلثوم کی خاموشی میں دردناک نوحوں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔جب ایک طرف بیتابانہ خواہشوں کے جال ہوں اور دوسری طرف ارادوں کے بلند پہاڑ۔ایسے میں خاموشی کی طغیانیاں اپنے طلاطم کے اظہار سے گریز نہیں کرتی ہیں۔میری سوچ ایک ایسے نقطے پر اٹک گئی تھی جو میرے سکون میں ایک انتشار برپا کر رہی تھی ۔جب ہم تہذیبی اور اخلاقی تقاضوں کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں تو ہمارے احساس میں خلش کا کانٹا کیوں نہیں چبھے گا ؟

میں سمجھتا ہوں کہ میں زندگی کے تقاضوں کو سمجھ سکتا ہوں۔لیکن میرے اور کلثوم کے درمیان جو ایک فطری حجاب تھا میں اسے عبور نہیں کر سکتا تھا اور اس کے والدین اپنے فیصلے کو آسمانی صحیفے سے کم درجہ دینے پر تیار نہیں ہورہے تھے۔اورمیں بے بسی کے ایک ایسے جال میں الجھ چکا تھا جس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی میری کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوپا رہی تھی

آج صبح سویرے جب کسی نے گھر کا دروازہ زور سے بجانا شروع کیا تو میں ابھی اٹھ کر دروازہ کھولنے کاسوچ رھا تھا۔ لیکن شائد امی قریب ہی تھیں۔ اس لئے دروزے تک وہ پہنچ گئیں۔ کچھ دیر بعد رونے اور کچھ سرگو شیوں کی آوازیں سنائیں دیں تو اندازہ ہوا کہ خالہ صغراں آئی ہیں۔ اتنا سویرے سویرے۔ مجھے کچھ پریشانی ہوئی ۔ اٹھ کراپنے بستر سے باہر نکلا ہوں تو خالہ صغراں کی آواز آرہی تھی ۔۔جب میں صبح اٹھی تو کلثوم بستر پر نہ تھی ۔میں باہر نکلی تو باہر کے دروازے کی کنڈی بھی کھلی ہوئی تھی۔۔۔۔۔

میرا سانس ایک دم گھٹنے لگا ۔ مجھے اپنے ہاتھ کے زخم کے نشان میں خارش کے ساتھ ساتھ شدید جلن کا بھی احساس ہونے لگا

میم سین

No comments:

Post a Comment