میں لکھنا کیوں چاہتا ہوں۔۔۔
یہ عاجزی، تحمل، بردباری ہی تو ہے جس نے ایسے شعور میں رہنے کا حوصلہ دے رکھا ہے جو ابھی اٹھارویں صدی میں جی رھا ہے۔ بات محض اپنے احساسات اور جذبات کو دوسروں تک پہنچانے کی نہیں ہے بلکہ ان مسائل کی نشاندگی کرنا ہے جس سے ہمارے پسماندہ علاقوں میں خدمات سرانجام دینے والے افراد کو گزرنا پڑتا ہے۔
اور شائد اس گہری خلیج کی طرف بھی نشاندھی کرنا ہےجو ہماری عوام اور حکام بالا کے درمیان موجود ہے۔ جب تک ہمیں اپنے مسائل سے آگاہی نہیں ہوگی ۔اس شعور کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے جن کا ہمیں سامنا ہے۔ہم اپنے مسائل کو حل نہیں کر سکتے۔
ہمارے لوگوں کی ذہن سازی آج بھی درباروں پر ہوتی ہے ۔توہم پرستی ان کی گھٹی میں اتر ہوچکی ہے۔ ان کی تربیت جس تعلیم کے ذریئے ہورہی وہ اس قدر فرسودہ اورروایتی ہے کہ اس میں تبدیلی لائے بغیر کوئی بھی انقلابی قدم اٹھانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے
ہمارے دیہاتوں قصبوں اور گائوںمیں رہنے والے ابھی جس شعور میں رہ رہے ہیں وہ اس قدر فرسودہ ہے کہ جس میں عزم واستقلال سے مزین معاشرہ تشکیل ہی نہیں دیا جاسکتا۔ جس میں آگہی کی گردان بے معنی ہے اور جس نے لوگوں کو ایسی بندھنوں میں جکڑ رکھا ہے جن کا تعلق نہ مذہب سے ہے نہ ثقافت سے اور نہ روایات سے ۔ بس کسی ویرانے میں اگی خرد رو جڑی بوٹیوں کی طرح معاشروں میں رچ بس گئی ہیں
یہ لوگوں کی سادگی کا مذاق نہیں ہے نہ ہی کم فہمی پر طنز ہے۔یہ تو دھرکتے دل کے ساتھ بڑے مہذبانہ، شاعرانہ اندازمیں معاشرے کے نامسائد حالات کی عکاسی ہے۔جس میں ہم لوگ جی رہے ہیں
میم سین
یہ عاجزی، تحمل، بردباری ہی تو ہے جس نے ایسے شعور میں رہنے کا حوصلہ دے رکھا ہے جو ابھی اٹھارویں صدی میں جی رھا ہے۔ بات محض اپنے احساسات اور جذبات کو دوسروں تک پہنچانے کی نہیں ہے بلکہ ان مسائل کی نشاندگی کرنا ہے جس سے ہمارے پسماندہ علاقوں میں خدمات سرانجام دینے والے افراد کو گزرنا پڑتا ہے۔
اور شائد اس گہری خلیج کی طرف بھی نشاندھی کرنا ہےجو ہماری عوام اور حکام بالا کے درمیان موجود ہے۔ جب تک ہمیں اپنے مسائل سے آگاہی نہیں ہوگی ۔اس شعور کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے جن کا ہمیں سامنا ہے۔ہم اپنے مسائل کو حل نہیں کر سکتے۔
ہمارے لوگوں کی ذہن سازی آج بھی درباروں پر ہوتی ہے ۔توہم پرستی ان کی گھٹی میں اتر ہوچکی ہے۔ ان کی تربیت جس تعلیم کے ذریئے ہورہی وہ اس قدر فرسودہ اورروایتی ہے کہ اس میں تبدیلی لائے بغیر کوئی بھی انقلابی قدم اٹھانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے
ہمارے دیہاتوں قصبوں اور گائوںمیں رہنے والے ابھی جس شعور میں رہ رہے ہیں وہ اس قدر فرسودہ ہے کہ جس میں عزم واستقلال سے مزین معاشرہ تشکیل ہی نہیں دیا جاسکتا۔ جس میں آگہی کی گردان بے معنی ہے اور جس نے لوگوں کو ایسی بندھنوں میں جکڑ رکھا ہے جن کا تعلق نہ مذہب سے ہے نہ ثقافت سے اور نہ روایات سے ۔ بس کسی ویرانے میں اگی خرد رو جڑی بوٹیوں کی طرح معاشروں میں رچ بس گئی ہیں
یہ لوگوں کی سادگی کا مذاق نہیں ہے نہ ہی کم فہمی پر طنز ہے۔یہ تو دھرکتے دل کے ساتھ بڑے مہذبانہ، شاعرانہ اندازمیں معاشرے کے نامسائد حالات کی عکاسی ہے۔جس میں ہم لوگ جی رہے ہیں
میم سین
No comments:
Post a Comment