Wednesday, January 14, 2015

ضرورت ہے محبت کے چند بولوں کی۔۔۔۔

معاشرہ نام ہے کچھ حدود وقیود کا جس کا وہ پابند ہوتا ہے اور اس معاشرے میں رہنے کا نام زندگی ہے ۔ ہم میں سے ہر شخص ایک زندگی گزار رھا ہے۔زندگی کے ہر لمحے  ہم کسی نہ کسی تعلق یا رشتے میں کسی کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ کچھ وابستگیاں اختیاری ہوتی ہیں اور کچھ مجبوری۔لیکن زندگی کا سارا حسن انہی وابستگیوں سے قائم ہوتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ انسان نامکمل ہوتا ہے۔اپنے اختیارات میں اپنی فطرت میں۔اور اس کی وابستگیاں اسے مکمل بناتی ہیں۔ یہ وابستگیاں اس کے بھائی بہن ہوسکتے ہیں۔ رشتے دار بھی۔ اس کے دوست احباب یا پھر اس کی بیوی بچے۔۔۔ لیکن نہیں ٹھہریئے یہ وہ رشتے ہیں جن کے ساتھ ہمیں اپنی وابستگیوں کا  احساس  ہمیشہ ہوتا ہے۔ لیکن کچھ وابستگیاں معاشرے میں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا ساتھ ہمارے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا ہے لیکن ہم انہیں وہ مقام یا اہمیت نہیں دیتے جن کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔
کبھی کسی مچھلی فروش کو مچھلی کی صفائی اور کٹائی کرتے دیکھا ہے؟ کیسا ہنر ہے اس کے پاس۔چھوٹی سی چھڑی کی باریک نوک سے اس کے پیٹ کو چیڑ کر اگلے ہی لمحے اس کا پیٹ ایک انگلی سے صاف کر دینا اور ایک بڑی چھڑی لیکر چند لمحوں میں اسے ٹکڑوں میں تبدیل کر دینا۔
 اس دن جب میں اپنے نئے بوٹ کیچڑ میں لت پت کر بیٹھا تو رشید موچی نے چند منٹوں میں اسے ایسے نکھار دیا جیسے ابھی خریدے ہوں۔
جس دن گھر کا سیورج بند ہوا اور مستری نے اس کا حل نئے پائپ بتایا تو ایک بار تو دل ڈوب گیا۔لیکن جب حمید مسیح نے بانس کے ایک لمبے ٹکڑے کے ساتھ سارا نظام دوبارہ چالو کر دیاتو میں اس کے ہنر کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکا۔
جب آپ صبح کسی سڑک سے گزریں یا پھر کسی پارک میں جائیں۔ وہاں پر کچھ لوگ لمبے جھاڑو لئے صفائی کر رہے ہوتے ہیں۔ چند لمحے ان کو کام کرتا دیکھیں اور اس حصے پر نظرد وڑائیں جہاں سے وہ صفائی کر کے خشک پتوں اور دوسری کچڑے کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں بنا چکے ہوتے ہیں۔ اتنے وسیع رقبے پر صرف ایک جھاڑو کی مدد سے اتناکام کرنا ایک ہنر سے کم نہیں ہے
اس دن ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھانے گیا۔ کسی کام سے باہر نکلا تو نظر ان کے تنور پر پڑی۔ جس سرعت سے ایک آدمی آٹے کے پیڑے بنا رھا تھا اور دوسرا بندہ ان پیڑوں کو تنور کے اندر لگا رھا تھا،مجھے رکنے پر مجبور کر دیا۔ چند منٹ تک ان کے مشینی انداز میں روٹیاں لگا نے کے کام کو دیکھتا رھا۔اتنے گاہکوں کو فوری اور گرم روٹی پہنچانا ایک ہنر سے کم نہیں
اس دن گاڑی کی سروس کیلئے ورکشاپ جانا ہوا۔ تین بچوں نے جس چابک رفتاری سے نٹ پیچ کھولے ۔ اس نے مجھے حیران کر دیا۔ ہر چابی، پانے، رینچ، پلاس کا نام اور سائز انہیں اس طرح یاد تھا کہ استاد کی ہلکی سی آواز پر متعلقہ اوزار اس کے ہاتھ میں موجود ہوتا تھا۔
صبح سویرے کھیتوں کے پاس سے گزر ہوا تو منظور نے نہری پانی کو اپنے کھیت تک پہنچانے والے کھال کی صفائی کا آغاز کیا تھا۔دوپہر کو دوبارہ گزرا تو تو مجھے اچنبھا ہوا یہ دیکھ کرکہ صرف ایک کدال کی مدد سے اس نے لگ بھگ ایک کلومیٹرلمبا کھال، گھاس پھونس اور فالتو مٹی سے پاک کرکے اسے استعمال کے قابل بنا لیا تھا۔
جامن کے درختوں کے پاس سے اس وقت گزریں جب ان کا پھل اتارا جا رھا ہوتا ہے۔جامن کے درخت کی لکڑی بہت کمزور ہوتی ہے اس لئے اس کے اوپر چڑھ کر پھل نہیں اتارا جاتا بلکہ درخت کے ارد گرد بانسوں اور لکڑیوں کا ایک ڈھانچہ کھڑ ا کیا جاتا ہے اور اس پر چڑھ کر ایک ایک پھل اتارا جاتا ہے۔ ایک بار اس سارے منظر کو دیکھیں تو ا نسان دنگ رہ جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بیری کا ایک درخت تھا۔ ایک بار اس پر شہد کا چھتا لگ گیا ۔شہد اتارنے والے کو بلایا تو وہ اپنے ساتھ کچھ گھاس بھی لایا اور چھتے کے بالکل نیچے اسے آگ لگا دی۔اس کا دھواں مکھیوں تک پہنچا تو مکھیاں نہ تو پاگل ہوئیں اور نہ ہی انہوں نے کسی پر حملہ کیا۔ چپ چاپ چھتا چھوڑ کر چلی گئیں۔ سیڑھی لگائی۔ چھتا اتارا اور شہد نچوڑ کر حوالے کر دیا۔اور میں دم بخداس بندے کا کمال دیکھتا رھا
ایسے ہی بیسیوں لوگ جن میں ترکھان بھی ہیں اور معمار بھی،موچی اور جمعدار بھی۔ان میں نانبائی بھی ہوگا اور گھروں میں کام کرنے والی مائی بھی اور ایسے ہی بہت سے لوگ جن کے ساتھ ہماری وابستگیاں ہوتی ہیں۔یہ تعلق یہ ناطے ہمارے ساتھ جڑے ہوتے ہیں لیکن ہمیں شائد ان کا احساس نہیں ہوتا۔ ان وابستگیوں کی وجہ سے معاشرے کا انسان کسی زنجیرکی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑا ہوتا ہے۔انسانی فطرت میں چاہے جانے کی آرزو پائی جاتی ہے۔۔۔ ستائش کی آرزو۔۔ تسلیم کئے جانے کی آرزو۔۔۔تو کیا ہوگا اگر ہم اپنے ارد گرد پھیلے ہنر مندوں کے ہنر کو تسلیم کریں ۔اور اقرار کریں ان کے سامنے۔یہ سچ ہے کہ ہر تعلق کے ساتھ قلبی لگاؤ نہیں رکھا جا سکتا لیکن نیک جذبات کے اظہار کیلئے حوصلہ بحرحال نکل آتا ہے۔محبت کے چند بول بہی خواہوں میں اضافہ کریں گے۔ بہی خواہوں کے دوست آپ کے قریب آئیں گے۔اورآپ کو مضبوط کریں گے اور معاشرے کی یہ زنجیر مضبوط سے مضبوط ہوتی چلی جائے گی
میم سین

No comments:

Post a Comment