چند ماہ پہلے کی بات ہے ایک دوست کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ جنہوں نے آبادی سے باہر اپنی زمینوں میں ہی گھر بنا رکھا ہے۔ فصلیں اور باغ دکھانے کے بعد مجھے وہ اپنے ڈیرے پر لے آیا جہاں چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں اورمجھے بیٹھنے کا کہہ کر خود گھر کے اندر چلا گیا ۔ میں ارد گرد لگے پودوں اور پھولوں کو دیکھنے اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے لطف اندوز ہونے لگ گیا۔ اتنے میں ایک پھلواری کے پیچھے سے ایک مرغی برآمد ہوئی اور اس کے پیچھے پیچھے چھوٹے چھوٹے چھ سات چوزے برآمد ہوئے۔ادھر ادھر منہ مارتے صحن کے وسط تک آگئے ۔مجھے ان کی حرکات و سکنات بہت دلچسپ معلوم ہو رہی تھیں کہ اچانک مرغی جن قدموں سے پھلواری کے پیچھے سے آئی تھی انہی قدموں پر واپس لوٹ گئی۔ مجھے اس کی اس حرکت پر کچھ تجسس ہوا ۔لیکن کچھ ہی لمحوں بعد وہ دوبارہ برآمد ہوئی تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس کے ساتھ ایک اور چوزہ بھی تھا
چند دن پہلے لاہور کی ایک مسجد میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا۔شوشل میڈیا میں گردش کرتی تصویروں پر نظر پڑتی تو کلیجہ کانپ کانپ جاتا۔مضطرب ذہن گھائل روح پر لگے کانٹوں کو نکالنے میں ناکام رہتا۔ ایک ماں کے آنکھوں کا نور اندھیروں میں ڈھل گیا۔ ایک باپ چلتی سانسوں کے ساتھ مر گیا۔درندگی کے ایسے مجرم کو جینے کیلئے چھوڑ دینا خود ایک جرم ہوگا۔جس نے ایک معصوم پھول کو مسل کر اسے سفید چادر میں سلا دیا۔
کچھ لوگوں نے جہاں مسجدوں اور مدرسوں پر اپنا بغض نکالا تو وہاں پر کچھ نے مساجد کے انتظامات بہتر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔کچھ نے نے اپنا نزلہ پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی پر نکالا۔ کچھ کے خیال میں ایسے واقعات کی ساری ذمہ داری میڈیا پر جاتی ہے جس نے قوم کو بے راہ روی کی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ لیکن کسی نے ان والدین کی ذمہ داریوں پر زور نہیں دیاجو اپنے بچوں کی تربیت اور نگرانی میں کوتاہی برتتے ہیں۔
درندگی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔آئے روز ہم ایسے واقعات کے گواہ بنتے ہیں جو ہمارے سماج کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بنتے رہتے ہیں۔ نسل در نسل اور پشت در پشت خاندان بے حرمتی کے یہ داغ لئے اپنے آپ کو سولی پر چڑھائے پھرتے ہیں۔ جب میں ڈیڑھ سے دو سال کی عمر کے بچوں کی ماؤں سے کہتا ہوں کہ ان کو دکان کی گندی چیزوں سے بچاؤ تو ان کی اس بے بسی پر کہ اب بچہ خود محلے کی دکان سے ٹافیاں لے آتا ہے تو میں کیا کروں؟ تو میرا سر پیٹنے کو دل کرتا ہے۔ کسی بھی گلی محلے میں چلے جاؤ۔ سڑک کے بیچ وبیچ چھوٹے چھوٹے بچے کھیلتے ہوئے ملیں گے۔بچے گھر سے کب نکلے، سڑک پر کتنا رش ہے؟ والدین اکثر اس معاملے میں بے خبر ہوتے ہیں۔
بچے گلے میں بستے لٹکائے سکول جارہے ہوتے ہیں۔ وہاں سے نکلتے ہیں تو ٹیوشن پر چلے جاتے ہیں ۔ پڑھائی کیسی جارہی ہے؟ کون سے ٹیسٹ ہوئے ہیں؟ امتحان کب ہوں گے؟ بچے کی تعلیمی کارگردگی کیسی جارہی ہے؟ کتنے والدین ہیں جو سکول انتظامیہ اور اساتذہ کے ساتھ رابطہ میں رہتے ہیں؟
گورنمنٹ سکولوں اور کالجوں کی ابتر حالت کی ذمہ داری تومحض گورنمنٹ پر ڈال کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔لیکن حالات پرائیویٹ اداروں میں پڑھنے والے والدین کے بھی ایسے نہیں ہیں کہ ہم انہیں ستائش کی نظر سے دیکھتے رہیں۔
بہت کم والدین ایسے ہیں جو ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں کہ بچہ سکول کن رستوں سے جاتا ہے؟ سکول سے چھٹی کتنے بجے ہوتی ہے؟ سکول سے واپسی پر دیر سے کیوں آیا؟ ٹیوشن کے نام پر بچہ کہاں جارھا ہے؟ ورنہ انہیں ہوش اسی وقت آتا ہے جب کوئی سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔
شائد میرا یہ سوچنا بجا ہے کہ کیا ہم اپنے بچوں کی اتنی بھی حفاظت نہیں کر سکتے جتنی ایک مرغی اپنے بچوں کی کرتی ہے؟؟؟
میم .سین
چند دن پہلے لاہور کی ایک مسجد میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا۔شوشل میڈیا میں گردش کرتی تصویروں پر نظر پڑتی تو کلیجہ کانپ کانپ جاتا۔مضطرب ذہن گھائل روح پر لگے کانٹوں کو نکالنے میں ناکام رہتا۔ ایک ماں کے آنکھوں کا نور اندھیروں میں ڈھل گیا۔ ایک باپ چلتی سانسوں کے ساتھ مر گیا۔درندگی کے ایسے مجرم کو جینے کیلئے چھوڑ دینا خود ایک جرم ہوگا۔جس نے ایک معصوم پھول کو مسل کر اسے سفید چادر میں سلا دیا۔
کچھ لوگوں نے جہاں مسجدوں اور مدرسوں پر اپنا بغض نکالا تو وہاں پر کچھ نے مساجد کے انتظامات بہتر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔کچھ نے نے اپنا نزلہ پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی پر نکالا۔ کچھ کے خیال میں ایسے واقعات کی ساری ذمہ داری میڈیا پر جاتی ہے جس نے قوم کو بے راہ روی کی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ لیکن کسی نے ان والدین کی ذمہ داریوں پر زور نہیں دیاجو اپنے بچوں کی تربیت اور نگرانی میں کوتاہی برتتے ہیں۔
درندگی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔آئے روز ہم ایسے واقعات کے گواہ بنتے ہیں جو ہمارے سماج کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بنتے رہتے ہیں۔ نسل در نسل اور پشت در پشت خاندان بے حرمتی کے یہ داغ لئے اپنے آپ کو سولی پر چڑھائے پھرتے ہیں۔ جب میں ڈیڑھ سے دو سال کی عمر کے بچوں کی ماؤں سے کہتا ہوں کہ ان کو دکان کی گندی چیزوں سے بچاؤ تو ان کی اس بے بسی پر کہ اب بچہ خود محلے کی دکان سے ٹافیاں لے آتا ہے تو میں کیا کروں؟ تو میرا سر پیٹنے کو دل کرتا ہے۔ کسی بھی گلی محلے میں چلے جاؤ۔ سڑک کے بیچ وبیچ چھوٹے چھوٹے بچے کھیلتے ہوئے ملیں گے۔بچے گھر سے کب نکلے، سڑک پر کتنا رش ہے؟ والدین اکثر اس معاملے میں بے خبر ہوتے ہیں۔
بچے گلے میں بستے لٹکائے سکول جارہے ہوتے ہیں۔ وہاں سے نکلتے ہیں تو ٹیوشن پر چلے جاتے ہیں ۔ پڑھائی کیسی جارہی ہے؟ کون سے ٹیسٹ ہوئے ہیں؟ امتحان کب ہوں گے؟ بچے کی تعلیمی کارگردگی کیسی جارہی ہے؟ کتنے والدین ہیں جو سکول انتظامیہ اور اساتذہ کے ساتھ رابطہ میں رہتے ہیں؟
گورنمنٹ سکولوں اور کالجوں کی ابتر حالت کی ذمہ داری تومحض گورنمنٹ پر ڈال کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔لیکن حالات پرائیویٹ اداروں میں پڑھنے والے والدین کے بھی ایسے نہیں ہیں کہ ہم انہیں ستائش کی نظر سے دیکھتے رہیں۔
بہت کم والدین ایسے ہیں جو ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں کہ بچہ سکول کن رستوں سے جاتا ہے؟ سکول سے چھٹی کتنے بجے ہوتی ہے؟ سکول سے واپسی پر دیر سے کیوں آیا؟ ٹیوشن کے نام پر بچہ کہاں جارھا ہے؟ ورنہ انہیں ہوش اسی وقت آتا ہے جب کوئی سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔
شائد میرا یہ سوچنا بجا ہے کہ کیا ہم اپنے بچوں کی اتنی بھی حفاظت نہیں کر سکتے جتنی ایک مرغی اپنے بچوں کی کرتی ہے؟؟؟
میم .سین
No comments:
Post a Comment