کل کمالیہ جاتے ہوئے سخت سردی اور دھند میں مغرب کے بعد سڑک کے دونوں جانب لگے روشنی میں نہائے سٹالوں، سپیکروں سے بلند ہوتی موسیقی اور لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر حیرت ہوئی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا ، بابا روشن شاہ کا میلہ لگا ہوا ہے۔
ہمارے دیہاتوں میں میلے عام طور پر کسی بزرگ کے عرس پر منعقد ہوتے ہیں۔ کھانے پینے کے، برتنوں کے، کھلونوں کے سٹال لگتے ہیں۔۔۔ موت کا کنواں بھی آتا ہے۔ اگر انتظامیہ ہمت کرے تو سرکس بھی آجاتی ہے۔ رنگ برنگی دنیا۔کوئی کھانے پینے کیلئے سجے سٹال دیکھ رھا ہے۔ تو کوئی بچوں کو جھولے دلوا رھا ہے۔کہیں چڑیا گھر قائم ہے اور لوگ ٹکٹ کیلئے کھڑے ہیں۔ تو کوئی بھوت بنگلے کے اندر جانے کیلئے بے چین ہے۔۔ لوگ اپنے بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ ان میلوں کا رخ کرتے ہیں اورپیسوں کے خرچ میں کنجوسی بھی نہیں کرتے ہیں۔
لیکن اس بات سے اختلاف نہیں ایسی جگہیں شرک کی آماجگاہیں ہیں، غیر اخلاقی سرگرمیوں کیلئے محفوظ مقامات۔ جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہیں۔شہر کا آوارہ اور بے راہ روی کا شکار ہر نوجوان ان میلوں کا رخ کرتا ہے۔کوئی گالیاں نکال رھا ہے تو کہیں حیا سوز گانے چل رہے ۔تو کہیں ذو معنی فقرے کسے جارہے ہیں۔ کیا ایسے میلوں میں لوگوں کو شرکت کرنا چاہیئے، جہاں غیر اخلاقی سرگرمیاں عروج پر ہوں؟۔۔
لیکن سب اعتراضات کے باوجود میں یہ سوچتا ہوں کہ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والوں کیلئے تفریح کیلئے مواقع کون سے ہیں؟ نہ تو کوئی پارک ہیں اور نہ ہی فن لینڈ کی طرز پر کوئی جھولے یا بچوں کو باہر لے جانے کا کوئی اور بہانہ ۔ حکومتی سطح پر لوگوں کی تفریح کیلئے کبھی انتظامات ہی نہیں کئے گئے۔شہروں کے اندر پارک بنانا تو دور کی بات، بچوں کے کھیلنے کیلئے گراؤنڈ کیلئے جگہ چھوڑنے کا رجحان ہی نہیں ہے۔اور اگر کہیں خوش قسمتی سے ایسے میدان موجود ہیں جہاں بچے کھیل سکتے ہیں تو ان پر قبضہ مافیہ پراجمان ہوتا ہے۔ چند سال پہلے تک سرکاری سکولوں میں وسیع میدان تھے۔ جہاں پر طلبا کے ساتھ ساتھ شہر کے دوسرے نوجوان کرکٹ، فٹبال ، والی بال کھیلے آجایا کرتے تھے۔ لیکن سکولوں میں نئے کمروں کی تعمیر اور خالی جگہوں کا دوسرے مقاصد کیلئے استعمال کے بعد اب سکولوں میں کھیلنے کیلئے بھی گراؤنڈ میسر نہیں رہے۔ یہ میلے ٹھیلے نہ ہوں تو لوگ تفریح کیلئے کہاں جائیں؟
میم سین
ہمارے دیہاتوں میں میلے عام طور پر کسی بزرگ کے عرس پر منعقد ہوتے ہیں۔ کھانے پینے کے، برتنوں کے، کھلونوں کے سٹال لگتے ہیں۔۔۔ موت کا کنواں بھی آتا ہے۔ اگر انتظامیہ ہمت کرے تو سرکس بھی آجاتی ہے۔ رنگ برنگی دنیا۔کوئی کھانے پینے کیلئے سجے سٹال دیکھ رھا ہے۔ تو کوئی بچوں کو جھولے دلوا رھا ہے۔کہیں چڑیا گھر قائم ہے اور لوگ ٹکٹ کیلئے کھڑے ہیں۔ تو کوئی بھوت بنگلے کے اندر جانے کیلئے بے چین ہے۔۔ لوگ اپنے بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ ان میلوں کا رخ کرتے ہیں اورپیسوں کے خرچ میں کنجوسی بھی نہیں کرتے ہیں۔
لیکن اس بات سے اختلاف نہیں ایسی جگہیں شرک کی آماجگاہیں ہیں، غیر اخلاقی سرگرمیوں کیلئے محفوظ مقامات۔ جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہیں۔شہر کا آوارہ اور بے راہ روی کا شکار ہر نوجوان ان میلوں کا رخ کرتا ہے۔کوئی گالیاں نکال رھا ہے تو کہیں حیا سوز گانے چل رہے ۔تو کہیں ذو معنی فقرے کسے جارہے ہیں۔ کیا ایسے میلوں میں لوگوں کو شرکت کرنا چاہیئے، جہاں غیر اخلاقی سرگرمیاں عروج پر ہوں؟۔۔
لیکن سب اعتراضات کے باوجود میں یہ سوچتا ہوں کہ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والوں کیلئے تفریح کیلئے مواقع کون سے ہیں؟ نہ تو کوئی پارک ہیں اور نہ ہی فن لینڈ کی طرز پر کوئی جھولے یا بچوں کو باہر لے جانے کا کوئی اور بہانہ ۔ حکومتی سطح پر لوگوں کی تفریح کیلئے کبھی انتظامات ہی نہیں کئے گئے۔شہروں کے اندر پارک بنانا تو دور کی بات، بچوں کے کھیلنے کیلئے گراؤنڈ کیلئے جگہ چھوڑنے کا رجحان ہی نہیں ہے۔اور اگر کہیں خوش قسمتی سے ایسے میدان موجود ہیں جہاں بچے کھیل سکتے ہیں تو ان پر قبضہ مافیہ پراجمان ہوتا ہے۔ چند سال پہلے تک سرکاری سکولوں میں وسیع میدان تھے۔ جہاں پر طلبا کے ساتھ ساتھ شہر کے دوسرے نوجوان کرکٹ، فٹبال ، والی بال کھیلے آجایا کرتے تھے۔ لیکن سکولوں میں نئے کمروں کی تعمیر اور خالی جگہوں کا دوسرے مقاصد کیلئے استعمال کے بعد اب سکولوں میں کھیلنے کیلئے بھی گراؤنڈ میسر نہیں رہے۔ یہ میلے ٹھیلے نہ ہوں تو لوگ تفریح کیلئے کہاں جائیں؟
میم سین
No comments:
Post a Comment