Monday, January 12, 2015

تعجب

.کل سے میں حیران بھی ہوں اور کسی حد تک پریشان بھی۔کیونکہ میرے یقین کی نبض ایک بار رک گئی تھی
میں ایک عرصے سے اس فلسفہ پر یقین رکھتا تھا کہ یہ جو مرد اپنی بیویوں سے ڈرتے ہیں اس کی وجہ وہ خلا ہے جو ان کی شخصیت میں رہ جاتا ہے۔وہ خلا جو پہلے ماؤں کے ہاتھوں باپ کا خوف پیدا کرتا ہے۔ گھر میں باپ کے داخل ہوتے ہی سناٹا چھا جانا۔ اگر بچے کھیل رہے ہوتے تھے تو فوراً اپنی گیند چھپا لیتے تھے۔ اگر کوئی دھینگا مشتی جاری ہوتی تو سب بھاگ کر کونوں کھدروں میں پناہ ڈھونڈ رہے ہوتے تھے ۔اور باپ کا دبدبہ اور خوف بغیر کسی مار پیٹ کے گھر میں قائم ہوجاتا تھا۔
اور پھر سرکاری سکولوں میں ماسٹر وں کا خوف۔ کسی کو خبر نہیں ہوتی تھی کہ کب اور کس بات پر مولا بخش حرکت میں آسکتا ہے۔ اور مساوات کا اصول ایسا کہ حرکت کوئی بھی غلط کرے لیکن مرغا ساری کلاس بنتی تھی۔
یہ خوف اور ناانصافیاں، احساس محرومی کو جنم دیتی ہیں اور یہ احساس محرومی تحت الشعور میں کہیں کوئی خلا پیدا کر دیتی ہیں ہے۔جب بیوی زندگی میں داخل ہوتی ہے تو وہ خود کو مرد کے سپرد کر دیتی ہے لیکن بہت جلد وہ اس خلا کو ڈھونڈ لیتی ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے ۔یوں اس کا خارجی روپ سامنے آتاہے۔ اور مرد اپنے اس خلا کے زیر اثربیوی کی ہر بات میں ہاں جی کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
یہ باتیں تو تھیں پرانے دور کیں۔ اب تو سکولوں میں مار نہیں پیار کا نعرہ ہے۔ گھروں میں بھی بچے اپنے والدین سے ڈرنے والے نہیں بلکہ ان کو اپنی فرمائشوں پر نچاتے ہیں ۔ لیکن کل ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جو آدھی عمر لندن میں گزار کر پاکستان آیا تھا، نسٹ سے گریجویٹ تھا۔ اسے اپنی بیوی کے سامنے بھیگی بلی بنا دیکھ کر حیرت ہوئی اس کی شخصیت میں کون سی کمی رہ گئی تھی
میم سین

No comments:

Post a Comment