کبھی کبھی میں جھنجلا جاتا ہوں ۔جب رشتوں کے پاکیزہ جذبوں میں خود غرضی اور بے اعتناعی برتی جاتی ہے۔ ایسی باتوں پر جوانسانی معراج کا کا تمسخر اڑاتی نظر آتی ہیں۔بہت سے جرم ایسے ہوتے ہیں جن کا اگر اقرار کر لیا جائے تو ان کی حیثیت شائدجرم والی نہیں رہتی۔لیکن ضمیر کی خلش ہمیشہ اس کا احساس دلاتی رہتی ہے۔جب مرد اور عورت ایک لطیف بندھن سے جڑتے ہیں تو اولاد زندگی کی راعنائیوں کو ایک دوام بخشتی ہے۔لیکن جب فطری تقاضوں سے منہ موڑیں گے تو کسی دن چاروں افق اپنی بے بسی اور مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہونگے۔
ابھی بچی کی عمر ہی کیا ہے کہ اس کی شادی کر دی جائے پہلے کچھ زمانے کے رنگ تو سیکھ لے۔۔۔کیا کہا شادی کر رہی ہو کچھ دن دونوں کو مل تو بیٹھنے تو دو ،کچھ ذہنی ہم آ ہنگی آجائے تو شادی بھی کر دینا۔۔۔شادی تو بہن کر رہی ہو لیکن ابھی بچہ نہیں ہونا چاہیئے ۔۔ جب سسرال میں قدم جم جائیں تو پھر دیکھ لینا۔۔۔۔ہم کدھر جارہے ہیں؟ کیا ہم سمجھتے ہیں ۔ہم اس طلم اور زیادتی کا ازالہ کرنے جارہے ہیں جو ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ روا رکھا گیا
جس دن ممتاز نے بتایا تھاتو میں نے اس واقعے کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ کہ شادی کے بعد جب وہ پہلی بار میکے آئی تو اسے معلوم ہواتھا کہ وہ حاملہ ہوچکی ہے لیکن اس کی ماں اسے ایک دائی کے پاس لے گئی اور یہ کہہ کر حمل ضائع کروا دیا کہ ابھی سسرال میں پاؤں تو جما لو۔ لیکن شائد قدرت کا انتقام بھی عجیب ہوتا ہے کہ وہ نہ تو دوبارہ ماں بن سکی اور اور نہ ہی اپنے خاوند کو قابو کر سکی، جو گھر سے زیادہ دوسرے معمولات میں زیادہ دلچسپی لینے لگا تھا
کچھ ایسا ہی واقعہ میرے ایک دوست نے سنایا کہ جس نے شادی کے تیسرے مہینے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی ۔ میرے بے حد اصرار پر اس نے بتایا کے شادی کے بعد جب ماہواری کی مسلسل بے قائدگی ختم نہیں ہورہی تھی تو ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس لیکر گیا تو اس کی معمول کی تسلی میرے لئے ایک انکشاف سے کم نہیں تھی۔لیڈی ڈاکٹر نے بتایا کہ مانع حمل کے ٹیکے کا اثر ہے جونہی وہ ختم ہوگا تو ماہوراری میں باقائدگی آ جا ئے گی۔اور جب بیوی سے وضاحت چاہی تو معلوم ہوا کہ اس کی ماں نے اس نیت سے ٹیکہ لگوایا تھا کہ کہیں جلد اولاد نہ ہوجائے اوربعد میں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔لیکن اس دوست نے غصے میں آکر تعلق ہی توڑ دیا
بانو اپنے موٹاپے کے علاج کیلئے میرے پاس آئی توجب اولاد کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ جب ہماری شادی ہوئی تھی تو ہم میاں بیوی نے بچوں کی ذمہ داری کو کچھ سالوں کیلئے التوا میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ۔ تین سال بعد جب بچوں کی خواہش کی تو شائدقدرت ہم سے ناراض ہوچکی تھی۔ پچھلے چھ سال سے دوائیاں کھا رہی ہوں لیکن بچہ کی ابھی کوئی امید نظر نہیں آرہی اور موٹاپے کا مرض الگ سے گلے لگ گیا ہے۔
میاں بیوی کے رشتے کے درمیان محبت اور تعلقات میں ایک ٹھہراؤ کسی اصول پر ہوتا ہے۔ اس اصول کی بنیاد کسی عقیدت کسی جذبے پر ہوتی ہے اور وہ جذبہ اولاد بناتی ہے۔بچہ شائد یہ نہ جانتا ہو کہ وہ عدم سے وجود میں کیسے آیا تھا لیکن جس لمحے وہ پہلی سانس لیتا ہے ماں ایک ہی جست میں فرش سے عرش کا سفر طے کر جاتی ہے۔اور باپ کا تکمیلِ محبت کا آخری باب لکھ دیا جاتا ہے۔سب جانتے ہیں کہ اولاد پیار کا ایک ایسا تحفہ ہے جوسچی لگن کا پھل ہے۔شادی کے بعد ایک امتیاز اور فخر کی علامت۔سدا بہار درخت کی چھاؤں۔ایک ایسا نور جو تاریکی سے اس کے سارے اندھیرے چھین لے۔کسی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند جو زندگیوں کو مخمور کر دے۔ایک ایسا خواب جو ہزاروں دعاؤں اور امنگوں کی تکمیل سے ملتا ہے
لیکن یہ کیسے والدین ہیں۔ کیسی مائیں ہیں؟ کیسے باپ ہیں۔ جنہوں نے پیار اور چاہت کا مفہوم بدل دیا ہے ۔ تعلقات کی گہرائیوں کی کسوٹی تبدیل کر دی ہے۔اپنی ذاتی انا کیلئے ،خوشیوں کے معیار بدل دیئے ہیں۔
فہم و ادراک اور جذبات میں شدت پسندی ہمیشہ نقصان پہنچاتے ہیں۔فطرت کے تقاضوں کو مصلحت کے اصولوں سے سیکھیں گے توصرف تخریب جنم لیتی ہے۔ جب ہم فطرت کو اپنے نظریات سے شکار کرتے ہیں تو فریب کے مشکوک حلقے ہمیں نقصان پہنچائے بنا نہیں رہ سکتے۔۔اپنی حد سے بڑھی مصلحت انسانی تہذیب کو بربادیوں کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔
میم سین
ابھی بچی کی عمر ہی کیا ہے کہ اس کی شادی کر دی جائے پہلے کچھ زمانے کے رنگ تو سیکھ لے۔۔۔کیا کہا شادی کر رہی ہو کچھ دن دونوں کو مل تو بیٹھنے تو دو ،کچھ ذہنی ہم آ ہنگی آجائے تو شادی بھی کر دینا۔۔۔شادی تو بہن کر رہی ہو لیکن ابھی بچہ نہیں ہونا چاہیئے ۔۔ جب سسرال میں قدم جم جائیں تو پھر دیکھ لینا۔۔۔۔ہم کدھر جارہے ہیں؟ کیا ہم سمجھتے ہیں ۔ہم اس طلم اور زیادتی کا ازالہ کرنے جارہے ہیں جو ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ روا رکھا گیا
جس دن ممتاز نے بتایا تھاتو میں نے اس واقعے کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ کہ شادی کے بعد جب وہ پہلی بار میکے آئی تو اسے معلوم ہواتھا کہ وہ حاملہ ہوچکی ہے لیکن اس کی ماں اسے ایک دائی کے پاس لے گئی اور یہ کہہ کر حمل ضائع کروا دیا کہ ابھی سسرال میں پاؤں تو جما لو۔ لیکن شائد قدرت کا انتقام بھی عجیب ہوتا ہے کہ وہ نہ تو دوبارہ ماں بن سکی اور اور نہ ہی اپنے خاوند کو قابو کر سکی، جو گھر سے زیادہ دوسرے معمولات میں زیادہ دلچسپی لینے لگا تھا
کچھ ایسا ہی واقعہ میرے ایک دوست نے سنایا کہ جس نے شادی کے تیسرے مہینے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی ۔ میرے بے حد اصرار پر اس نے بتایا کے شادی کے بعد جب ماہواری کی مسلسل بے قائدگی ختم نہیں ہورہی تھی تو ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس لیکر گیا تو اس کی معمول کی تسلی میرے لئے ایک انکشاف سے کم نہیں تھی۔لیڈی ڈاکٹر نے بتایا کہ مانع حمل کے ٹیکے کا اثر ہے جونہی وہ ختم ہوگا تو ماہوراری میں باقائدگی آ جا ئے گی۔اور جب بیوی سے وضاحت چاہی تو معلوم ہوا کہ اس کی ماں نے اس نیت سے ٹیکہ لگوایا تھا کہ کہیں جلد اولاد نہ ہوجائے اوربعد میں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔لیکن اس دوست نے غصے میں آکر تعلق ہی توڑ دیا
بانو اپنے موٹاپے کے علاج کیلئے میرے پاس آئی توجب اولاد کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ جب ہماری شادی ہوئی تھی تو ہم میاں بیوی نے بچوں کی ذمہ داری کو کچھ سالوں کیلئے التوا میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ۔ تین سال بعد جب بچوں کی خواہش کی تو شائدقدرت ہم سے ناراض ہوچکی تھی۔ پچھلے چھ سال سے دوائیاں کھا رہی ہوں لیکن بچہ کی ابھی کوئی امید نظر نہیں آرہی اور موٹاپے کا مرض الگ سے گلے لگ گیا ہے۔
میاں بیوی کے رشتے کے درمیان محبت اور تعلقات میں ایک ٹھہراؤ کسی اصول پر ہوتا ہے۔ اس اصول کی بنیاد کسی عقیدت کسی جذبے پر ہوتی ہے اور وہ جذبہ اولاد بناتی ہے۔بچہ شائد یہ نہ جانتا ہو کہ وہ عدم سے وجود میں کیسے آیا تھا لیکن جس لمحے وہ پہلی سانس لیتا ہے ماں ایک ہی جست میں فرش سے عرش کا سفر طے کر جاتی ہے۔اور باپ کا تکمیلِ محبت کا آخری باب لکھ دیا جاتا ہے۔سب جانتے ہیں کہ اولاد پیار کا ایک ایسا تحفہ ہے جوسچی لگن کا پھل ہے۔شادی کے بعد ایک امتیاز اور فخر کی علامت۔سدا بہار درخت کی چھاؤں۔ایک ایسا نور جو تاریکی سے اس کے سارے اندھیرے چھین لے۔کسی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند جو زندگیوں کو مخمور کر دے۔ایک ایسا خواب جو ہزاروں دعاؤں اور امنگوں کی تکمیل سے ملتا ہے
لیکن یہ کیسے والدین ہیں۔ کیسی مائیں ہیں؟ کیسے باپ ہیں۔ جنہوں نے پیار اور چاہت کا مفہوم بدل دیا ہے ۔ تعلقات کی گہرائیوں کی کسوٹی تبدیل کر دی ہے۔اپنی ذاتی انا کیلئے ،خوشیوں کے معیار بدل دیئے ہیں۔
فہم و ادراک اور جذبات میں شدت پسندی ہمیشہ نقصان پہنچاتے ہیں۔فطرت کے تقاضوں کو مصلحت کے اصولوں سے سیکھیں گے توصرف تخریب جنم لیتی ہے۔ جب ہم فطرت کو اپنے نظریات سے شکار کرتے ہیں تو فریب کے مشکوک حلقے ہمیں نقصان پہنچائے بنا نہیں رہ سکتے۔۔اپنی حد سے بڑھی مصلحت انسانی تہذیب کو بربادیوں کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔
میم سین
No comments:
Post a Comment