اگر انسان مکمل ہوتا تو پیغمبروں کی ضرورت نہ پڑتی۔ آسمانی کتابوں کو نازل نہ کیا جاتا ۔انسان کو فطرت نے نامکمل پیدا کیا ہے۔ لیکن فطرت کا دیا ہوا یہ ادھورا پن ہی انسانی زندگی کا سب سے لطیف پہلو ہے۔یہ ادھورا پن اسے سیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔وہ جب فریب کھاتا ہے تو سچائی کی تلاش کرتا ہے۔وہ جب چوٹ کھاتا ہے تو برداشت سیکھتا ہے۔جب جنگ کرتا ہے تو امن کو ڈھونڈتا ہے۔وہ جب گناہ کرتا ہے تو ثواب ڈھونڈتا ہے۔ ۔انسان کا یہی ادھورہ پن اس کی زندگی کو اگر مایوسیوں سے دوچار کرتا ہے تو وہیں پر اس کی امنگوں کو بیدار کرتا ہے ۔اس کے من کے اندر ہلچل مچاتا ہے، اسے سچ اور جھوٹ کی پڑکھ سکھاتا ہے۔اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلا کر صراط مستقیم دکھاتا ہے اور یوں وہ گناہ اور نیکی کے درمیان فرق سیکھ جاتاہے۔
جہاں لوگ گناہوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں وہیں پرکچھ لوگ نیکیاں کمانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور اللہ کے گھر آنے والوں کی خدمت کرنے میں لوگ ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ کچھ لوگ مسجدوں میں گرم پانی کیلئے گیزر لگوا کر دیتے ہیں ۔ کچھ لوگ بجلی کی مسلسل فراہمی کیلئے یو اپی ایس یا پھر جنریٹر کا اہتمام کر کے دیتے ہیں۔ کچھ پنکھے لگوا کر دیتے ہیں ۔اور کچھ ٹھنڈی ہوا کیلئے بندو بست کرتے ہیں۔سچی بات ہے کہ نمازیوں کو سہولت فراہم کرنے میں لوگ خرچ کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔
کل شام ایک مسجد میں مغرب کی نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ نماز سے فارغ ہوا تو نظر سامنے لگے نما زوں کے اوقات کے کیلنڈر پر پڑی جس کے ساتھ ایک بورڈ لگا ہوا تھاجس پر ہندسوں میں ایک ڈیڑھ، دو تین و غیرہ لکھا ہوا تھا۔ تجسس نے مجبورکیا تو قریب جا کر دیکھا تو چھوٹے چھوٹے خانے بنے ہوئے تھے اور ہر خانے میں ایک قریب کی نظر کی عینک رکھی ہوئی تھی۔ میرے لئے یہ نئی بات تھی۔ سوچا پتا نہیں ان کو استعمال کون کرتا ہوگا؟ ۔لیکن اتنے میں ایک بزرگ نے اپنی نماز مکمل کی اور چار نمبروالے خانے سے ایک عینک نکالی اور الماری سے قرآن پاک نکال کر ایک طرف ہوکر بیٹھ کر مطالعہ شروع کردیا۔ سوچ کے اس نئے انداز کو دیکھ کر خوشی ہوئی
میم سین
جہاں لوگ گناہوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں وہیں پرکچھ لوگ نیکیاں کمانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور اللہ کے گھر آنے والوں کی خدمت کرنے میں لوگ ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ کچھ لوگ مسجدوں میں گرم پانی کیلئے گیزر لگوا کر دیتے ہیں ۔ کچھ لوگ بجلی کی مسلسل فراہمی کیلئے یو اپی ایس یا پھر جنریٹر کا اہتمام کر کے دیتے ہیں۔ کچھ پنکھے لگوا کر دیتے ہیں ۔اور کچھ ٹھنڈی ہوا کیلئے بندو بست کرتے ہیں۔سچی بات ہے کہ نمازیوں کو سہولت فراہم کرنے میں لوگ خرچ کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔
کل شام ایک مسجد میں مغرب کی نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ نماز سے فارغ ہوا تو نظر سامنے لگے نما زوں کے اوقات کے کیلنڈر پر پڑی جس کے ساتھ ایک بورڈ لگا ہوا تھاجس پر ہندسوں میں ایک ڈیڑھ، دو تین و غیرہ لکھا ہوا تھا۔ تجسس نے مجبورکیا تو قریب جا کر دیکھا تو چھوٹے چھوٹے خانے بنے ہوئے تھے اور ہر خانے میں ایک قریب کی نظر کی عینک رکھی ہوئی تھی۔ میرے لئے یہ نئی بات تھی۔ سوچا پتا نہیں ان کو استعمال کون کرتا ہوگا؟ ۔لیکن اتنے میں ایک بزرگ نے اپنی نماز مکمل کی اور چار نمبروالے خانے سے ایک عینک نکالی اور الماری سے قرآن پاک نکال کر ایک طرف ہوکر بیٹھ کر مطالعہ شروع کردیا۔ سوچ کے اس نئے انداز کو دیکھ کر خوشی ہوئی
میم سین
No comments:
Post a Comment