یہ کل شام کی بات ہے۔اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے پہنچا تو وہاں مجھے سے پہلے دو افراد انتظار میں کھڑے تھے۔ میں وقت گزارنے کیلئے پٹھان کے پاس آکر اس کی عینکیں دیکھنے لگ گیا۔ شام ہوچکی تھی اور وہ اپنا سامان ایک بیگ میں اکھٹا کر رھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی ایک عینک بیگ میں سے نکالی اور میرے سامنے کر دی بولا
یہ اورجنل رے بین ہے۔ویسے تو دو ہزار میں سیل کرتا ہوں لیکن آپ کیلئے صرف پندرہ سو میں۔
میرے لئے رعائیت کیوں؟
شام کا وقت ہے۔جانے سے پہلے سیل ہوجائے تو اگلے دن برکت رہتی ہے
لیکن میں اتنی مہنگی عینک لے کر کیا کروں گا؟
اس نے بیگ میں ہاتھ ڈال کر بالکل پہلے جیسی ایک عینک اور نکالی اور میرے ہاتھ میں پکڑا دی
یہ رے بین کا کاپی ہے۔ خود کمپنی کا بنایا ہوا۔صرف پانچ سو میں مل جائے گا
لیکن خان! کاپی ہے تو کمپنی خود کیوں بنائے گی؟
حاجی صاحب آپ بزنس کے بارے میں نہیں جانتے۔میں بھی نہیں۔لیکن گورا بہت چالاک ہے وہ مارکیٹ پر اپنا قبضہ رکھنا چاہتا ہے۔اس لئے خود ہی کاپیاں بنا کر مارکیٹ میں پہنچا دیتا ہے
لیکن کاپی ہونے کی کیا گارنٹی ہے؟
خان صاحب نے ایک بال پوائنٹ نکالی اور عینک کے شیشے پر رگڑ کر دکھایا
دیکھیں صاحب۔ادھر ایک بھی خراش نہیں پیدا ہوا
پانچ سو میں اتنا اچھا عینک آپ کو ملنے کا نہیں
لیکن میرے اوپر اتنی عنائیات کیوں؟
مولانا صاحب ہم سارا دن بھانت بھانت کے لوگوں سے ملتا ہے۔ہمیں پہلی نظر میں پتا چل گیا تھا کہ آپ زیادہ بحث کرنے والے بندے نہیں ہیں
لیکن پھر بھی قیمت کچھ کم ہونا چاہیئے
آپ کو کاپی دکھا کر اصل کے پیسے مانگ سکتا تھالیکن صاحب کاروبار کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں
لیکن خان صاحب دام کچھ کم کریں
قاری صاحب ۔ ایک دم اورجنل جیسا ہے۔ اس سے سستا آپ کو کہیں سے نہیں ملے گا
اتنے میں اے ٹی ایم پر میری باری آگئی اور میں پیسے نکلوانے اندر چلا گیا ۔لیکن بدقسمتی سے مشین نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا اور میں خالی ہاتھ باہر آگیا۔
باہر نکلا تو پٹھان نے عینک پھر میرے سامنے رکھ دی
صاحب! ایسا پیس آسانی سے ملنے کا نہیں۔سوچو مت صرف پانچ سو میں ۔ بالکل مفت ہے
لیکن ۔میرے پاس پیسے اتنے پیسے نہیں ہیں۔ اور اے ٹی ایم نے بھی انکار کر دیا ہے۔ اور خالی پرس کھول کر اسے دکھا دیا جس میں سے دو سو روپے جھانک رہے تھے
اچھا تو پھر دو سو میں ہی رکھ لو۔ دکان بڑھانے کا وقت ہے۔شام کو خالی ہاتھ گاہک بھیجنا اچھا شگون نہیں ہوتا
میم سین
یہ اورجنل رے بین ہے۔ویسے تو دو ہزار میں سیل کرتا ہوں لیکن آپ کیلئے صرف پندرہ سو میں۔
میرے لئے رعائیت کیوں؟
شام کا وقت ہے۔جانے سے پہلے سیل ہوجائے تو اگلے دن برکت رہتی ہے
لیکن میں اتنی مہنگی عینک لے کر کیا کروں گا؟
اس نے بیگ میں ہاتھ ڈال کر بالکل پہلے جیسی ایک عینک اور نکالی اور میرے ہاتھ میں پکڑا دی
یہ رے بین کا کاپی ہے۔ خود کمپنی کا بنایا ہوا۔صرف پانچ سو میں مل جائے گا
لیکن خان! کاپی ہے تو کمپنی خود کیوں بنائے گی؟
حاجی صاحب آپ بزنس کے بارے میں نہیں جانتے۔میں بھی نہیں۔لیکن گورا بہت چالاک ہے وہ مارکیٹ پر اپنا قبضہ رکھنا چاہتا ہے۔اس لئے خود ہی کاپیاں بنا کر مارکیٹ میں پہنچا دیتا ہے
لیکن کاپی ہونے کی کیا گارنٹی ہے؟
خان صاحب نے ایک بال پوائنٹ نکالی اور عینک کے شیشے پر رگڑ کر دکھایا
دیکھیں صاحب۔ادھر ایک بھی خراش نہیں پیدا ہوا
پانچ سو میں اتنا اچھا عینک آپ کو ملنے کا نہیں
لیکن میرے اوپر اتنی عنائیات کیوں؟
مولانا صاحب ہم سارا دن بھانت بھانت کے لوگوں سے ملتا ہے۔ہمیں پہلی نظر میں پتا چل گیا تھا کہ آپ زیادہ بحث کرنے والے بندے نہیں ہیں
لیکن پھر بھی قیمت کچھ کم ہونا چاہیئے
آپ کو کاپی دکھا کر اصل کے پیسے مانگ سکتا تھالیکن صاحب کاروبار کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں
لیکن خان صاحب دام کچھ کم کریں
قاری صاحب ۔ ایک دم اورجنل جیسا ہے۔ اس سے سستا آپ کو کہیں سے نہیں ملے گا
اتنے میں اے ٹی ایم پر میری باری آگئی اور میں پیسے نکلوانے اندر چلا گیا ۔لیکن بدقسمتی سے مشین نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا اور میں خالی ہاتھ باہر آگیا۔
باہر نکلا تو پٹھان نے عینک پھر میرے سامنے رکھ دی
صاحب! ایسا پیس آسانی سے ملنے کا نہیں۔سوچو مت صرف پانچ سو میں ۔ بالکل مفت ہے
لیکن ۔میرے پاس پیسے اتنے پیسے نہیں ہیں۔ اور اے ٹی ایم نے بھی انکار کر دیا ہے۔ اور خالی پرس کھول کر اسے دکھا دیا جس میں سے دو سو روپے جھانک رہے تھے
اچھا تو پھر دو سو میں ہی رکھ لو۔ دکان بڑھانے کا وقت ہے۔شام کو خالی ہاتھ گاہک بھیجنا اچھا شگون نہیں ہوتا
میم سین
No comments:
Post a Comment