Tuesday, October 22, 2019

کمالیہ کی ہاتھ کی کھڈی


آوارہ گرد کی ڈائری...


چند دن پہلے ڈاکٹر رابعہ درانی نے لکھا تھا

چاند پر چرخا کاتنے والی بی بی اگر حقیقت ہوتی تو وہ چاند پر چرخا کیوں کاتا کرتی اسے زمین پر آنا چاہیے تھا کپاس تو یہاں اگتی ہے ۔۔ دراصل چاند
والی اماں اپنے محبوب" بہت پہنچی ہوئی سرکار" کے مزار کی مجاور ہے ۔
پھر بھی ہزارہا صدیوں کا وقت کیسے کاٹے تو چاند بی جی چرخے والی نے'وقت کاٹنے' کی بجائے ''چرخا کاتنے '' کا فیصلہ کیا ۔سمارٹ چوائس ازنٹ اٹ ! اپنے ہاتھوں سے بٹی سوت کی کیا ہی بات ہے۔

عشق کی قیمت ملے نہ ملے۔۔۔

اپنی پہچان سے عشق،اپنی شناخت، اپنی مٹی سے عشق، اپنی ثقافت اپنی تہذیب ۔۔ ۔انسان جب عشق کے زیر اثر آتا ہے تو یہ خوشی کا لمحہ ہوتا ہے۔ایک دنیا جاگ رہی ہوتی ہے ایک آلائو روشن ہوچکا ہوتا ہے۔سچائی کی قندیل آپ کی رہنمائی پر مامور ہوچکی ہوتی ہے۔پھر عشق کی کیا قیمت ۔ عشق کا کیا صلہ۔

کمالیہ شہر کی پہچان کھدر ہے۔ اور اصلی کھدر وہی تھا جو ہاتھ کی کھڈی پر بنایا جاتا تھا۔ کمالیہ کے ہی ایک رہائشی اعظم بانکا کو بھی اپنی اس شناخت سے عشق ہے۔ اور اس نے مشینی دور میں اپنے عشق کو دیکھا۔اور ہاتھ سے دو کھڈیاں بنا کر ان پر کپڑا بننا شروع کیا۔

عشق کی قیمت ملے یا نہ ملے۔

اعظم بانکا ہمارے ہی آبائی محلے بلکہ آبائی گلی کا مکین ہے۔اس سے ملا تو دلچسپ انکشاف ہوا کہ یہ کھڈیاں اس نے اپنے ہاتھ سے اس لکڑی سے بنائی ہیں جو ہمارے آبائی گھر کے نئے مالکان کی جانب سے تعمیر نو کیلئے پرانے گھر کو گرانے کے بعد فروخت کی تھی

ہاتھ سے بنا کھدر کا دھاگہ کچھ موٹا ہوتا ہے اس لیئے اس سے بنا ہوا کپڑا عموما سردیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔کپڑے کی بنتی میں ایک تانا ہوتا ہے اور ایک بانا۔ تانا وہ دھاگہ ہوتا ہے جو ورٹیکل باندھا ہوتا ہے اور بانا وہ دھاگہ ہوتا ہے جسے ایک ایک لکڑی کے بنے چوہا نما کی مدد سے تانے میں سے گزارا جا رھا ہوتا ہے۔ہاتھ سے بنی کھڈی کا کپڑا ایک تارہ یا دو تارہ یا پھر تین تارہ ہوتا ہے۔ تارہ کہتے ہیں رنگوں کے ان شیڈز کو جو بانا کے ذریئے پیدا کیا جاتا ہے۔ایک تھان میں انچاس سے چھپن میٹر کپڑا ہوتا ہے۔ اور ایک دن میں آٹھ سے دس گھنٹے محنت کے بعد ایک کھڈی پر سات سے دس میٹر کپڑا بنا جاسکتا ہے۔کاروباری لوگ ان کاریگر لوگوں سے اڑھائی سو سے تین سو روپے میٹر میں کپڑا خرید کر پانچ سے آٹھ سو روپے میٹر تک فروخت کرتے ہیں۔کچھ لوگوں کے نزدیک قیمت بہت زیادہ ہے۔
لیکن یہ قیمت کپڑے کی نہیں ہے اس عشق کی ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی ۔۔۔
میم سین

No comments:

Post a Comment