Saturday, January 12, 2013

ٹھگوں کی بستی


یورپ کے وائیکنگ دور کی طرح تاریخ کی کتابوں میں ہندستان میں ٹھگوں کے دور کا بھی ذکر ملتا ہے۔یہ دور حرص ، ہوس اور ، خود غرضی کی قصوّ ں اور داستانوں سے بھرا پڑا ہے۔ ٹھگوں کے یہ گروہ سارے ہندستان میں پھیلے ہوئے تھے اوران کا کام مسافروں کو لوٹ کر ان کو قتل کرنا اور لاش کو کسی بیابان میں دفن کر ناتھا۔ داستان گو سرائے خانوں اور گاؤں کے چوپالوں میں ان ٹھگوں کی سفاکی اور بے رحمی کی ایسی ایسی کہانیاں بیان کرتے تھے کہ لوگ حیرت اور خوف کے ملی جلی کیفیت کے ساتھ ان کو سننے کیلئے گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے۔۔ بہرام ٹھگ کا نام تو زبان زدِعا م ر تھا جس کے بارے مشہور تھا کہ اس نے ایک ہزار افراد کو قتل کیا ہے۔ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق کوئی دو لاکھ افراد کا خون ان ٹھگوں کے سر ہے۔ صرف انگریزوں کے عہد میں مورخین کے نزدیک پچاس ہزار افراد مارے گئے تھے۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں ان ٹھگوں نے وہ اودہم مچا ررکھا تھا کہ لارڈ ولیم بینڈنکٹ کے زیر نگرانی ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے ولیم ہیری سریمین کو ان ٹھگوں کا قلع قمع کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ اس نے اپنی ذہانت ،فراست اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے شہروں ، ویرانوں ا و ر اجاڑ جگہوں سے تین ہزار سے زائد ٹھگوں کو پکڑ کر سزا دلوائی اور ان کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ تابش خیرکے ناول ’’ دا تھنگز ابوٹ ٹھگز ‘‘ کے اْقتباسات پڑھتے ہوئے میرا دھیان یونہی اپنے ارد گرد پھیلے معاشرے کی طرفٖ چلا گیا۔ہم بھی تو آج ٹھگوں کی بستی میں رہتے ہیں۔ ٹھگ بھی ایسے کہ جب لوٹنے کو کوئی نہ ملا تو ایک ٹھگ نے دوسرے ٹھگ کو لوٹنا شروع کر دیا۔ آج کے ٹھگ، آدمی کو لوٹ کر اس کا سر تو نہیں کاٹتے،اس کا دم گھونٹ کرنہیں مارتے ،وہ تو اس کی روح کو چھلنی اور احساس زیاں کو تار تار کر دیتے ہیں۔ اگر کلرک فائلوں اور کاغذوں ذریعے ٹھگی کرتا ہے تو اس کا افسر اپنے عہدے کی طاقت کے سہارے۔ ڈاکٹر اگر اپنے پیشے کے تقدس کا ٹھگ ہے، تو لحاظ تدریس سے وابستہ استاد کو بھی نہیں ہے ۔ لائن مین اگر آپ کو دھوکہ دہی کی نئی راہیں دکھا رہا ہے تو گوالہ بھی اپنے دودھ کے خالص ہونے کی جھوٹی قسمیں اٹھا رہا ہے ،اگر سنار کو اپنے پیمانے کا بھرم نہیں ہے تو کریانہ فروش کوبھی اپنی اجناس کے معیار پر شرمندگی نہیں۔میں اپنی تنقید کا نشانہ سڑک بنانے والے ٹھیکیدار کو بناؤں یا ریڑھی پر ہیڑا پھیری کرتے خوانچہ فروش کو۔میں آرھتی کے کردار پر نکتہ چینی کروں یا پٹواری کے استحصال پر۔میں پولیس کے کردار کو حرف تنقید بناؤں یا قلم کے سوداگرصحافی کو۔کبھی مذہب کا لبادہ اوڑھ کر مُلا برساتی نالوں کا سیلابی پانی بن کر ہمیں بہانے آجاتا ہے تو کبھی سیاست کے نام پر ہمارا روائتی وڈیرہ آندھی بن کر ہمیں گرانے آجاتا ہے۔کبھی حکمران خشک سالی کا قحط بن جاتے ہیں تو کبھی اپنے ہی محافظ گھوڑے دوڑاتے کھڑی فصلوں کو کو روندنے آجاتے ہیں۔مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی مہیب گھنے جنگل میں رہ رہے ہیں جہاں ایک طرف درندے اپنے درندگی سے ہراساں کر رہے ہیں تودوسری طرف ڈکوؤں اور لٹیروں کی آماجگاہ ہے جنہوں نے بیباکی اور دلیری سے لوٹ مچا رکھی ہے کبھی جنگل کے سناٹوں میں بلند ہوتی چیخیں دل دھلا دیتی ہیں تو کبھی پتو ں اور جھاڑیوں کی ہوا سے پیدا ہونے والی سرسرہٹ خوفزدہ کر دیتی ہے یہ ہماری کوتاہیاں ہیں یامکاریاں ، خود غرضیاں ہیں یا زیادتیاں ، یہ سب مل کر ہمارے گناہو ں کی سیاہ پوشیوں میں ڈھل چکی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں دراڑیں پر چکی ہیں ایک وحشیانی سکتہ ہے، ایک مجرمانہ خاموشی ہے ہم تو اپنے ہی شہر میں اجنبی ہوچکے ہیں شرفِ انسانیت کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ دلوں پر گہرے زنگ آلود قفل لگ چکے ہیں۔ہم نے آگاہی اور خود شناسی کے رستے تو کب کے چھوڑ ڈالے ہیں ۔ توڑ پھوڑ کا یہ سلسلہ رکے تو،کوئی تعمیر نو کا نام لے ۔ میں تو یہ سوچتا ہوں کل کا تاریخ دان ہماری سیاہ کاریوں کو کیا نام دے گا۔ہماری ہوس پرستی اور سیسہ کاریوں کو کس عنوان کے تحت لکھے گا۔۔معاشرہ انسانیت کے نام پر افسوس کا باعث بن چکا ہے، ندامت کے احساس میں ڈھل چکا ہے۔ مجھے تو اب انتظار ہے کب لارڈ ولیم بینڈنکٹ ان ٹھگوں سے نجات دلانے کیلئے کسی ولیم ہیری سریمین کو نامزد کر یگا ۔ ورنہ ہم اپنی موت آپ مارے جائیں گے یا ہماری آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کو خون آشام بھیڑیوں کے گروہ سے تشبیہ دیں گی یا وحشی درندہ صفت قبائل کے نام سے پکاریں گیTop of Form

No comments:

Post a Comment