Thursday, January 3, 2013

لمحہ فکریہ


ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے اس شعبے کے حقوق کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کا ساتھ دینا میرا حق ہی نہیں میرا فرض بھی ہے۔لیکن ان حقوق کے حصول کیلئے میں کبھی یہ نہیں چاہوں گا کہ اس شعبہ کے اوپر ایسے داغ لگ جائیں جو ہمیشہ کیلئے اس کا حصہ بن جائیں۔ایسے داغ، جو آنے والی نسلیں وراثت میں حاصل کریں اور کل کو یہ نسلیں منہ چھپاتی پھریں اور ہمیں کوستی رہیں اور تاریخ ہمیں سیاہ حروف سے لکھے۔خاندانی جائیداد کی تقسیم میں اگر آپ کے ساتھ ناانصافی ہو تو کیا آپ اپنے باپ کو سڑکوں پر گھسیٹنا شروع کر دیں گے؟ لوگ آپ کے باپ کو نہیں آپ کی حرکت کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے کیونکہ تصفیے کیلئے بے شمار دوسرے طریقے اور ذریعے استعمال کئے جا سکتے تھے۔ لوگوں کے سامنے اپنی محرومیوں کا تماشہ بنا کرکیا ہم اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں؟۔یقیناًصحت کے شعبے کے ساتھ ناانصافیوں کا جو سلسلہ شہباز شریف کے پہلے دورِ حکومت سے شروع ہوا تھا وہ ابھی تک جاری ہے۔ وہ ملک جہاں پر قابل علاج بیماریوں سے مرنے والے والوں کی تعداد نا گہانی آفتوں سے زیادہ ہو۔جہاں آج بھی روزانہ ہزاروں عورتیں زچگی کے عمل کے دوران مر جاتی ہوں۔جہاں خسرہ، چکن پاکس، اور ڈائیریا سے آج بھی ہزاروں اموات ہو رہی ہوں، جہاں پر ساری توانائیاں صرف کر کے بھی پولیو پر قابو پایا نہ جا سکا ہو۔جہاں کی قوم کنفیوز ہو کہ کانسا طریقہ علاج بہتر ہے، ایلوپیتھک، حکمت یا ہومیو پیتھک ؟وہاں کی حکومت سے یقیناً اس بات کی توقی نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس شعبہ کے مسائل سے آگاہ ہے اور ان کے حل اور اس کی بہتری کے لئے کوئی اقدام کرے گی۔ کیا یہ ناانصافی صرف محکمہ صحت کے ساتھ ہو رہی؟ یا باقی محکمے بھی اس کی زد میں ہیں؟اگر آپ دوسرے محکموں کا جائزہ لیں گے تو ایک بات واضح ہو گی کہ صورتحال چند ایک محکموں کو چھوڑ کر ایک سی ہے۔ہر محکمہ ہی عدمِ توجہی کا شکار ہیں۔ ہرمحکمے میں احساسِ محرومی کی ٖفضا ہے۔حکمران طبقے کی بے حسی نے ہر محکمے اور ہر عام آدمی کے اندر ایک گھٹن اور احساسِ محرومی پیدا کر رکھا ہے۔لیکن کوئی مناسب پلیٹ فارم نہ ملنے کی وجہ وہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں اور اس گھٹن کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔لیکن جب کبھی یہ ابال برتن سے باہر آگیا تو یقیناً انقلاب کے نعرے کو حقیقت مل جائے گی۔ ڈاکٹرز کی یہ بہت بڑ ی خوش قسمتی ہے ہے کہ انہیں’’ ینگ ڈاکٹرز ‘‘ کی صورت میں اپنے مسائل کو پیش کرنے اور ارباب اختیار تک اپنی آواز پہنچانے کیلئے ایک ایک پلیٹ فارم میسر آ گیا ہے ۔یقیناً یہ اس شعبہ کیلئے ایک اچھی نوید کہی جا سکتی ہے ۔لیکن اپنی آواز کو بلند کرنے کیلئے زبان یا ہاتھوں کا نہیں بلکہ ذہن کا استعمال کرنا ہوگا۔ ایسوسی ایشن ایک مضبوط سانچے میں ڈھل چکی ہے۔ اب اسے حکمت عملی اور سوجھ بوجھ سے قدم آگے بڑحانے ہونگے ۔جب آپ حق پرہوتے بھی عوامی ہمدردیوں کو اپنا مخالف بنا لیں گے تو مقاصد میں کیسے کامیاب ہونگے ۔۔۔۔لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہیں اس ایسوسی ایشن کے عہدیدار ڈاکٹرز کے ساتھ وہی سلوک کرنے تو نہیں جا رہے جو جو غریبوں کی آواز کو لیکر پیپلز پارٹی نے کیا یا مہاجروں کے حقوق کو بنیاد بنا کر ایم کیو ایم نے کیا؟؟؟؟؟
میم ۔ سین

No comments:

Post a Comment