Saturday, January 5, 2013

سجدہَ سہو


پٹواری صاحب چند دنوں سے پریشان تھے۔ پریشانی کی وجہ ان کی صحت کا ٹھیک نہ رہنا تھا۔۔ ۔بیماری بھی کچھ ایسی تھی کہ جس کا کوئی سرا مل ہی نہیں رہا تھا۔ ہر وقت ان کی زبان پر ایک ہی شکایئت رہتی کہ جسم میں تھکاوٹ ہے اور طبیعت میں سستی۔
پہلے تومیں ہمیشہ ذہنی تناؤ کہ کر ٹال دیتا تھا پھر میرے کہنے پر فیصل آباد کارڈیک سنٹر سے بھی ہو آئے لیکن کچھ نہ نکلا۔ میڈیسن والوں نے سارے ٹسٹوں کے بعد ڈپر یشن کی دوائیوں پر ڈال دیا۔لیکن پٹواری صاحب کے منہ سے شکائیت کے کلمات جاری رہے۔۔۔۔۔۔۔

ابھی یہ عقدہ حل نہیں ہوا تھا کہ ایک دن صبح پانچ بجے فون بجا، نمبر دیکھا تو پٹواری صاحب تھے۔ سخت پریشانی کے عالم میں مجھے فوراً اپنے گھر آنے کی کی درخواست کی۔ ان کے گھر پہنچ کر معلوم ہواکہ ان کی بیٹی نے نیند کی گولیاں کھا لی ہیں اور اب بے ہوش ہے۔ معائینے کے بعد اندازہ ہو گیا کہ گولیوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے کہ جان لیوا ثابت ہو۔اور تسلی دی کہ جونہی گولیوں کا اثر ختم ہوگا تو یہ ہوش میں آجائی گی۔۔۔۔۔۔
۔یہ کوئی ایک ہفتہ بعد کی بات ہے جب پٹواری صاحب میرے کلینک تشریف لائے اور مجھے اگلی شام اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ کہ بیٹی کا نکاح ہے۔ میں نے صرف چند مہمانوں کو بلایا ہے آپ نے ضرور آنا ہے۔میرے چہرے پرابھرتی حیرت اور سوالوں کی موجودگی کو دیکھ کر مسکرا دئیے اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی بول اٹھے۔ کسی دن آپ سے فرصت میں ملنے آئوںگا۔ اگلے دن چند دوستوں اور کچھ رشتہ داروں کی موجودگی میں نکاح ہوا۔ جتنی سادگی سے نکاح ہوا، اتنی ہی سادگی سے رخصتی ہو گئی۔اور میں ذہن میں سوالیہ نشانوں کی قطار لئے اپنے گھر لوٹ آیا۔
چند دن ذہن میں سوال گھومتے رہے لیکن پھر مصروفیات میں سارے واقعات یاد کی کسی دراز میں بند ہوگئے۔۔لیکن ایک شام پٹواری صاحب آئے اور آتے ہی چائے کی فرمائش کی جس کا مطلب تھا کہ آج وہ جلدی میں نہیں ہیں۔
کہنے لگے، ڈاکٹر صاحب آپ یقیناً ان واقعات کے بارے میں جاننا چاہ رہے ہونگے جو چند دنوں سے میرے ساتھ پیش آرہے ہیں۔
میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ گویا ہوئے
۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کہ میں کچھ عرصے سے اپنی طبیعت کے بارے میں بہت پریشان تھا۔لیکن بات یہ ہوئی تھی کہ میری رات کو سونے سے پہلے دودھ پینے کی عادت کا فائدہ اٹھا کر میری بیٹی نے ملازمہ کی مدد سے دودھ میں نیند کی گولیاں ملانا شروع کر دی تھیں اور خود رات کیے لمحات اپنے دوست اور موجودہ خاوند کے ساتھ گزارنا شروع کر دئے تھے ۔جس دن میں نے آپ کو صبح سویرے گھر پر بلایا تھا اس رات کو کام زیادہ ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ کی وجہ سے میں دودھ پئے بغیر سو گیا آدھی رات کو اٹھا تو مجھ پر بہت سی حقیقتیں آشکار ہوئیں۔
غصے کا یہ عالم تھا کہ میری زبان سے الفاظ نکل نہیں رہے تھے مجھے آج بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکا کہ میں نے انہیں زندہ کیسے چھوڑ دیا۔ لڑکا تو فوراً بھاگ گیا تھا ۔ بیٹی کو کمرے میں بند کرکے اپنے کمرے میں آگیا ۔ اس کی ماں کو جگایا اور غصے میں اسے بھی کمرے سے نکال دیا۔ غیرت کے نشے میں اپنی عزت کو بچانے کیلئے بیٹی کو قتل کرنے اور واقعے کو چھپانے کے طریقوں پر غور کر رہا تھا کہ اس کی ماں چیختی چلاتی کمرے میں آئی کہ بیٹی بیہوش ہے اور پھر آپ کو بلانا پڑا۔۔۔۔
آپ کے جانے کے بعد میرے دل میں خیال آیا کہ ساری عمر تو گھر میں حرام مال آیا ہے۔ جس گھرکے معاملات حرام کی کمائی سے چل رہے ہوں، وہاں کی حفاظت کیا فرشتے کریں گے ؟ کیا ان گھروں میں فاطمہ یا رابعہ بصری پیدا ہونگی؟ خاندان کی عزت میرے ہاتھ میں ہے کیا اس کو مار دینے سے یہ محفوظ ہو جائے گی؟ اسے قتل کرنے کے بعد تو میں ساری عمر بھی اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرتا رہوں تو شائد ان کو معاف نہ کرا سکوں گا۔۔۔۔
۔پٹواری صاحب نے ایک لمبی آہ بھری اور بولے ۔ ابھی تو میں نے ایک کفارہ ادا کیا ہے ، ابھی اور بیشمار ادا کرنے ہیں۔ میرے لئے دعا کیجئے گا، میں اپنی نوکری چھوڑنے کا سوچ رہا ہوں۔۔۔۔
پٹواری صاحب نے چائے کا کپ ختم کیا اور اجازت لیکر رخصت ہو گئے لیکن میں دیر تک یہ سوچتا رہا 
اس دنیا میں ایسے خوش قسمت لوگ کتنے ہوں گے جن کو مرنے سے پہلے سجدہ سہو ادا کرنے کا موقع مل جاتا ہے؟؟
میم ۔ سین

2 comments:

  1. السلام علیکم
    بہت عمدہ،مثبت اور امید افزا کہانی ہے۔ جزاک اللہ خیر مبشر بھائ- حالانکہ اس میں بیٹی کے حوالے سے مایوس کن حالات بھی تھے مگر پٹواری صاحب کی توبہ نے دل خوش کر دیا-

    ReplyDelete
  2. اور یہ حقیقت مبنی سچا واقعہ ہے،نام اور کردار تبدیل کر دئے گئے ہیں

    ReplyDelete