Friday, January 18, 2013

ذرا سوچئے۔۔

یہ28 مئی1987 کی بات ہے۔ ایک رَسٹ نامی جرمن ہواباز نےِ فن لینڈ سے اپنے تربیتی طیارے کے ساتھ پرواز کی اور پورے سوویت یونین کے اوپر سے اڑتا ، کریملن  میں واقع ریڈ اسکوائر میں میں اپنا جہاز اتار دیا۔مقامی پولیس نے اسے اس وقت گرفتار کیا جب وہ چوک میں کھڑا لوگوں کو آٹو گراف دے رہا تھا۔۔کولڈ وار کے عروج کے دنوں میں وقوع ہونے والے اس تاریخ ساز قدم نے جہاں دنیا کو چونکا کر رکھ دیا تھا وہاں کمزور نظام دفاع اور زوال پذیر سپر پاور کی قلعی بھی کھول دی تھی۔مجھے یہ واقعہ پاکستا ن میں جاری لانگ مارچ پر بحث اور اس پرہونے والے تبصروں، ایوانوں پر خطابت کی گرتی بجلیوں،نظام پر حملہ آور تہلکہ خیز بیانوں اور غیر یقینی صورت حال سے پریشان عوام سے یاد آگیا۔آپ کتنا بھی طنز کر لیں، نام نہاد شیخ الاسلام کا تمسخر اڑا لیں، اس کے ہر قدم پر بدلتے بیانات کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا لیں ، اس کے انداز خطابت کی نقلیں اتاریں، یا اس کے انداز خطابت پر بھبکیاں کسیں۔ آپ اس کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیں یا اسے دجال سے تشبیہ دیں، اس کے سر پر بدلتی ٹوپیوں کے سٹائل پر فقرے کسیں یا اس کے ماضی کے جھوٹ لے کر ان کا پوسٹ مارٹم کریں، لیکن ہم اپنی ان جملہ ذمہ داریوں سے دامن نہیں چھڑا سکتے جو ہم پرواجب تھیں۔ ہم اپنی کو تا ہیوں اور لا پرواہیوں کے ایک لمبے سلسلے سے پہلوتہی نہیں کرسکتے ، جن کا ارتکاب ہم آدھ صدی سے کر رہے ہیں۔آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ ایک غیر ملکی شہری دندناتہ ، لوگوں کے جذبات سے کھیلتا، ملکی مسائل کا استحصال کرتا ، آپ کے پورے نظام کو سبوتاز کر دیتا ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص ملکی ایجنڈے کو سڑک پر راہ چلتی دوشیزہ کی طرح اغواہ کر لے اور ملکی دفاع کے تمام ادارے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جائیں، ایک بہروپیا پوری حکومتی مشنری اور قوم کو یر غمال بنا لیتا ہے، اور پوری دنیا میں ہماری بے بسی اور پچگانہ نظام حکومت کا مذاق اڑاتا ہے، ہماری اندرونی خلفشار ، منافقت، ہوس پرستی،،خودپرستی اور مفاد پرستی کو ساری دنیا پر عیاں کر کے تضحیق کا نشانہ بناتا ہے اور ہم تماشائی بنے اس کے ناٹک کے خاتمے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ غیروں سے کیا شکوہ ، جب گھر کے لوگ ہی نا ہل ہوجائیں ،دوسروں سے مسیحائی کی امید کیا ،جب ہم خود ہی ناکام ہوجائیں۔ جب ہمارے لیڈر ، ہمارے سیاستدان، ہمارے حکمران اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہوجائیں،جب ریاست اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتنے لگے،جب اپو زیشن مصلحت سے کام لے،سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو جائیں ، تو کوئی بھی گھوڑے دوڑاتا آپ پر حملہ آور ہو جائے تو اس پر افسوس ہے کیوں ، اس پر تعجب کیسا۔ مجھے تو حیرت اس بات پر ہے کہ ساری قوم اس پتلی تماشے پر تو تبصرے کرتی رہی لیکن کسی نے حکمرانوں کی بے حسی اور سیا ستدانوں کی خود غر ضی کو نشانہ نہیں بنایا جن کی کوتاہی اور مسائل سے چشم پوشی نے ہمیں آج یہ دن دیکھنا نصیب کیا کہ ایک مداری نے اپناتماشہ دکھانے کے لئے پورے ملک کویر غمال بنائے رکھا ہے۔ حکومت گرانا کونسا مشکل کام ہے، مہنگائی میں پسی عوام ، سی این جی کے سٹیشنوں پر اپنے بال سفید کرتے لوگوں ، لوڈشیڈنگ کے عذاب میں پھنسی قوم کی آواز کو لے کر کوئی بھی سنجیدہ کوشش کرتا تو آج ہمیں لانگ مارچ کے نام پر یہ تماشہ نہ دیکھنا پڑتا، یوں جگ ہنسائی نہ ہوتی۔ اگر یہ لاتعلقی اور مصلحت کی فضا یونہی قائم رہی تو کل کلاں ان مسائل کو لے کرمرزا مسرور احمد یا جاوید احمد غامدی اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے چڑھ دوڑیں تو حیرت کا اظہار مت کیجئے گا، یہودو نصاری کو گالیاں مت دیجئے گا،صیہونی آنکھ کو ساری کاروائی کا ذمہ دار مت ٹھہرائیے گا
میم ۔ سین

No comments:

Post a Comment