Wednesday, January 9, 2013

ڈاکٹر محمد محسن کے نام


یہ کوئی ساتویں یا آٹھویں جماعت کی بات ہے جب مجھے وہ اٹیچی کیس ملا تھا جو میری امی نے بوسیدہ جان کر پھینک دیا تھا۔ لیکن یہ بوسیدہ باکس میری کائنات بن گیا۔اس میں میری کل متاعِ حیات تھی۔اس میں پیپل کے وہ پتے تھے جو میں نے جاڑے کے دنوں میں اس ویران ریلوے سٹیشن سے اٹھائے تھے جہاں ریل گاڑی خراب ہو کر ساری رات کھڑی رہی تھی۔ اس میں نیل کانٹھ کے وہ دو پر بھی تھے جسے میں زخمی حالت میں پکڑ کے لایا تھا اور جب وہ صحت یابی کے قریب تھا تو ایک بلی کا نوالہ بن گیا تھا۔اس میں وہ چھوٹا سا پودا بھی کاغذوں کے درمیان محفوظ کر رکھا تھا جو کول تار کی سڑک کا سینہ چیڑ کر اگ آیا تھا، اس میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے وہ تعریفی خطوط بھی موجود تھے جو انہوں نے میرے بنائے ہوئے پوسٹرز کے جواب میں بھیجے تھے۔اس بکسے میں اس کالے بھنورے کا حنوط شدہ جسم بھی تھا جسے میں نے جیم کی خالی بوتل مین ڈھکن میں سوراخ کر کے رکھا تھا مگر ایک دن ٹھنڈ میں باہر بھول گیا اور وہ سخت سردی برداشت نہ کر پایا تھا۔ اس میں میرے ہاتھ سے بنے اور دوسروں کے بھیجے عید کارڈ بھی تھے اور اخباروں اور میگزینوں کے تراشے بھی بھی ،جو گاہے بگاہے میں جمع کرتا رہتا تھا۔ایسی ہی بے شمار چیزیں جن سے میری گہری یادیں وابستہ تھیں۔جب ہم اپنے آبائی گھر سے ذیشان کالونی والے گھرشفٹ ہوئے تو میرے گھر والوں نے فالتو سامان کے ساتھ میری اس کل کائنات کو مجھ سے دولخت کر دیاتھا۔۔
میں اپنے قلم کو متحرک رکھنے کیلئے ہمیشہ کوشاں رہا ہوں۔ معا شرے اور اس کو درپیش مسائل کے حوالے سے ،اپنے مشاہدات اور ان سے اخذ نتائج کے حوالے سے ۔میری یہ خواہش رہی ہے کہ میں لفظوں کا ہنر جان سکوں۔صفحہء قرتاس پر اپنا جادو جگا سکوں۔ لیکن جاوید چوہدری کی ایک کتا ب سے معلوم ہو کہ لکھنے کے لئے بابوں کی تحر یک کی ضرورت ہوتی ہے جب تک بابے آپ کو متحرک نہ کریں آپ کا قلم کبھی رواں نہیں ہوسکتا۔ ممتاز مفتی مجبور نہ کرتا تو آج دنیا جاوید چوھدری کے نام سے نا آشنا ہوتی ۔ممتاز مفتی کا نام سن کر میرا بابوں سے تو اعتبار اٹھ گیا لیکن بابوں کی ضرورت کا اعتقا ذہن پر ضرور بس گیا۔اشفاق احمد کو دیکھو یا قدر ت للہ شہاب کو ،بانو آپا ہوں یا مسعود مفتی ،سبھی بابوں کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔اگرچہ مجھے میرا بابا مل بھی گیا تھا مگر وہ جستجو کا مسافر ہے، کسی دور کی بستی میں جا بسا ہے ۔لیکن مجھے معلوم ہے وہ ’’ لو وِد اکسپائری ڈیٹ‘‘ کے فلسفے پر یقین رکھتا ہے، جلد لوٹ آئے گا۔مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر محمد محسن کے اندر بھی ایک بابا چھپا ہوا ہے۔، ساری دنیا سے بیگانہ اپنی دھن میں مگن۔ بار ہا چاہا کہ کہہ دو آپ میرے بابا بھی بن جائیں لیکن میرے اور ان کے بیچ ججھک کی خلیج ہے جو ہمیشہ حائل ہو جاتی ہے۔ ادب کاایک رشتہ ہے اور ایک لحاظ ہے جو ہمیشہ ایک تفریق پیدا کر دیتا ہے۔ وسوسوں اور وہموں کا ایک دریا ہے جس کے دوسرے کنارے پر کھڑےہو کر انہیں ا دیکھتا ہوں ، سنتا ہوں اور محسوس بھی کرتا ہوں۔یہ فاصلے ہیں جو ان کی بزرگی اور متانت کے سبب ہیں جو کسی غیر محسوس انداز میں میرے اندر رچ بس گئے ہیں ان کے کسی خیال پر تبصرہ کرنے سے پہلے ہزار بار اپنے لفظوں کے چناؤ پر نظر ثانی کرتا ہوں۔ میرے اور ان کے بیچ کسی نوجوان دوشیزہ کی حیا ہے، جو دل میں اپنے محبوب کو کہنے کے لئے ہزاروں باتیں ڈھونڈ کر رکھتی ہے ۔ لیکن سامنے آنے پر زبان ساتھ نہیں دیتی اور صرف نظریں گرا کر لوٹ آتی ہے۔ڈاکٹر محسن حقیقی بابا ہیں جس نے اپنی طلسماتی شخصیت سے کتنے ذہنوں اور کتنی فکروں کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔وہ قلم اور کاغذ کا کھلاڑی ہے ۔ لفظوں کو اپنے قلم سے ایسے نچاتا ہے کہ پڑھنے والا دم بخد رہ جاتا ہے۔ فکرکے بند دریچے اپنے کواڑ کھول دیتے ہیں۔ذہن لفظوں کی جنبش پر جھوم اٹھتے ہیں۔ وہ ہماری سوچ سے پڑے کسی جہاں میں آباد ہے جہاں کے شعوری زاویے کو سمجھنے کیلئے ایک مخصوص شعوری وجدان چاہئے جو ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔وہ تو پیدائشی بابا معلوم ہوتا ہے جس قدم پر پرہماری سمجھ کی انتہا ہوتی ہے اس قدم پر اس کی سوچ کی ابتدا ہوتی ہے۔میں جب سے اس سے ملا ہوں مجھے لگتا ہے،میری فکری افلاس ختم ہوگئی ہے۔اس کے احتسابی سوالوں کی یلغار اس قدر تیز ہوتی ہے کہ ظاہری اور باطنی وجود کسی بھنور میں پھنس جاتا ہے مگر وہ خود ہی سمندر کی لہر بن کر قاری کو ساحل پر چھوڑ آتا ہے۔
اگرچہ میں ان کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں شائد جتنا گھر کی کھڑکی میں بیٹھ کر سامنے والی سڑک سے گزرتے روزانہ دفتر کو جاتے شخص کو۔لیکن مجھے وہ وقت کی زنجیروں سے آزاد دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ متضاد ذہنوں کی اماجگاہ نہیں ہے اس کا انسانی رشتوں پر اعتقاد ہے، تبھی تو وہ عمل اور رد عمل کے اثرات بپر بحث کرنے کو ہر وقت تیار نظر آتا ہے۔اس کا ظرف وسیع بھی اور اعلی و ارفع بھی۔میری مرعوبیت کی وجہ اس کی یہ خوبی ہے کی وہ نمکین جھیل میں سے بھی میٹھے پانی کی بوندیں ڈھونڈ نکالتا ہے۔وہ شکستہ دل انسانوں کے جمِ غفیر سے بھی مسکراتی نظریں ڈھونڈ لیتا ہے۔غلیظ جسموں اور ٹوٹے ہوئے دلوں میں پاگیزگی کی مسرت ڈھونڈ نکالتا ہے۔مجھے نہیں معلوم ڈاکٹر محسن کا ماضی کیا ہے؟ اس کی محبت اور نفرت کے تضاد کا محور کون ہے؟مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کی خوشیاں کیا ہیں اس کے غموں کا ماخذ کون ہے۔میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ میں کب انکی طلسماتی شخصیت کے حصار میں آگیا تھا۔مجھے توکبھی کبھی لگتا ہے ڈاکٹر محسن کسی دیو ملائی کہانی کا کردار ہے۔جو بھیس بدل کرانسانوں کی بستی میں رہنے کا ہنر سیکھ رہا ہے۔جب اپنے دیس کی یاد ستاتی ہے تو سب کچھ چھوڑ کر لوٹ جاتا ہے ۔ انسانوں کی بنائی ہوئی مصنوئی دنیا کے قصے جا کر کوہ قاف والوں کو سناتا ہے۔اس کی شخصیت میں اس قدر بے ساختگی ہے کہ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے کوئی بچہ اپنی الماری کھول کر گھر آئے مہمان کو اپنے جمع کئے ہوئے کھلونے، سکول سے حاصل کی ہوئی ٹرافیاں اورسالگرہ پروصول کئے ہوئے تحائف دکھارہاہو۔مجھے بچپن سے مافوق الفطرت ہستیوں سے لگاؤ تھا۔ اپنے تخیل کی دنیا میں ڈھیروں کردار تخلیق کر رکھے ہیں۔میری اس دنیا میں کوئی فساد نہیں ہے کوئی کشمکش نہیں ہے کوئی روح اضطرابیت کا شکار نہیں ہے۔کوئی زندگی کا انتشار نہیں ہے۔یہاں کوئی المیہ نہیں ہے کوئی بے رو ح حسم نہیں ہے۔یہ محسوسات کی دنیا ہے۔احسا سا تِ جمال کی دنیا ۔ یہاں روح کا ایک مقام ہے۔یہاں جذبوں کی داستان ہے۔اور ڈاکٹر محمد محسن میری اس تصوراتی دنیا کا ایک جیتا جاگتا کردار ہے۔ایسا کردار جو لطیف جذبوں کا آئینہ دار ہے۔جو صداقتوں کا نہ خشک ہونے والا ایک چشمہ ہے۔
میں نہیں سمجھتا میرے قلم میں اس قدر صلاحیت ہے کے وہ میرے زہن میں قائم مجسمے کو لفظوں میں ڈھال سکے۔ لیکن آج مجھے شدت سے اپنا وہ گمشدہ اٹیچی کیس یاد آ رہا ہے کا ش اگر وہ آج میرے پاس ہوتا تو میں ڈکٹر محسن کو اپنی مٹھی میں بھینچ کر سب سے چھپاکر اپنے اس بکسے میں رکھ لیتا
میم ۔ سین

2 comments:

  1. This is so beautiful, so well written. Not only shows what an amazing person he is, but also what a thoughtful person you are. Thank you for this glimpse into both your lives.

    ReplyDelete
  2. main nay ye jaana k goya ye bhi meray dil main hay....
    very well expressed!

    ReplyDelete