Wednesday, January 30, 2013

اثاثہ


یہ کوئی ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے جب مجھے کھانسی کی تھوری سی تکلیف کا احساس ہوا لیکن مجھے نہیں پتا تھا کھانسی کا یہ ننھا سا بیج کتنا تناور درخت بن جائے گا۔اور معمولی سی کھانسی سے کھانسی کے بھوت میں تبدیل ہوجائے گا۔ ان چند دنوں میں کوئی انٹی بائیٹک نہیں چھوڑی اور کوئی ایسا کف سیر پ نہیں جس کا ذائقہ نہ چکھا ہو۔ دن تو جیسے تیسے گزر جاتا ہے، لیکن راتیں کسی نائٹ میئر میں ڈھل گئیں ہیں۔ کبھی کوئی ویمپائر بن کر ڈرانے آجاتا ہے۔ تو کبھی کوئی بھوت کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگتا ہے۔ ساری رات کھانسی کا دورہ کچھ ایسے رہتا ہے کہ کھانسی کے شربت پی، پی کر اور ٹوٹکے کرنے کے بعد صبح آنکھ کھلنے کا نام نہیں لیتی۔
 پکا ارادہ کرتا ہوں کہ آج سارا دن اپنے کمرے میں گزاروں گا۔لیکن جس دن سے کھانسی کے اس بھوت نے مجھے اپنے حصا ر میں لیا ہے، مریضوں کی تعداد میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے ۔جب بستر سے نکلنے میں کچھ دیر لگاتا ہوں ، کلینک سے فون کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو جاتی ہیں
فوراً کلینک پہنچیں، کسی دائی کے ہاں تھوری دیر پہلے بچہ پیدا ہوا ہے ، سانس کی کافی تکلیف ہے، ہم نے آکسیجن لگا دی ہے۔
کل جس بچے کو خون لگایا تھا وہ ایک سو چار بخار کے ساتھ آیا ہے ہم نے پٹیاں شروع کرا دی ہیں ۔ 

چھ ماہ کا بچہ پہنچا ہے، تیز بخار ہے ،تھوڑے تھوڑے جھٹکے محسوس ہو رہے ہیں۔
ایک اور بچہ آیا ہے ایک ہفتے سے دستوں میں مبتلا ہے اب تو اس کا پانی بالکل ختم ہے۔ 

خسرے کے ساتھ دو بچے ایک سو پانچ بخار کے ساتھ آئے ہوئے ہیں ۔ بخار کی دوائی پلا دی ہے لیکن کافی دیر سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔
 اور میں اپنے آپ کو او ر اپنے پروفیشن کو کوستا ، د و ڈبے پانی کے سر میں بہا کر ، ایک کپ چائے گلے میں انڈیل کر، تیزی سے تیار ہو کر کلینک کے لئے نکل پڑتا ۔ سارا راستہ اس سوچ میں گم، کیا یہ اخلاقی اور جذباتی بلیک میلنگ نہیں ہے؟ ۔ کیا میرے کلینک کے بغیر ان لوگوں کا گزارہ نہیں ہو سکتا؟۔ میں کلینک بند کر کے بیٹھ بھی جاؤں تو کسی نہ کسی کوئیک کی دوا نے اثر کرنا ہی ہے۔۔ اسی ذہنی کشمکش میں سارا دن مریضوں کے درمیان کچھ کھانستے اور کچھ دوایاں پھانکتے گزر جاتا۔ اور رات کو پھر بھوت وارد ہو جاتا اور وہی بے سکونی، بے آرامی۔رت جگا ، زہنی ہیجان،۔۔۔

جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں تحریر میں ذہنی یکسوئی برقرار رکھنے کیلئے موضوع کو ایک ہی بیٹھک میں ختم کرڈالوں۔ مگر جب پچھلا مضمون ’’ یقین‘‘ لکھنے بیٹھا تو ذہن، کھانسی کے شر بتوں اور نیند کی بے آرامی سے اس قدر دھندلا چکا تھا کہ مضمون کو مکمل کرنے میں پورے دو دن لگ گئے۔ مریض کا نسخہ لکھنے کے بعد دوبارہ پڑھتا ہوں، کہیں دوا لکھنے میں کوئی غلطی تو نہیں کر بیٹھا۔
]اس کھانسی کے بھوت کی شہرت میرے بہت ہی عزیز بزرگ حافظ عبد اللہ صاحب تک پہنچی تو کل شام وہ میرے پاس تشریف لائے ۔حافظ صاحب ایک مقامی درس میں پڑھاتے ہیں اور ساتھ میں اپنے ذاتی کاروبار کی بھی نگرانی کرتے ہیں ۔ جب بھی ملتے ہیں، اتنے خلوص اور پیار سے کہ ان کی موجودگی میں دنیا کے سارے دکھ اور غم غائب ہوجاتے ہیں ۔ آتے ہی شکوہ کیا ، کل ہی تو آپ سے فون پر بات ہوئی تھی۔ لیکن آپ نے اپنی تکلیف کا ذکر تک نہیں کیا۔ یہ کچھ ملٹھی اور چھوٹی مکھی کا شہد لایا ہوں۔ ملٹھی کو کسی کونڈی یا گرائنڈر میں پیس لیں ۔ اور چائے کا آدھ چمچ سفوف لے کر اتنے شہد میں ملا لیں اور نیم گرم پانی یا دودھ میں ملا کر لینا شروع کر دیں ۔ انشاللہ کل صبح تک  آفاقہ ہونا شروع ہو جائے گا۔
میں نے شکریہ کے ساتھ ان سے دونوں چیزیں لے کر اپنے میز کی دراز میں رکھ لیں کیونکہ میرا ارادہ ان کو استعمال کرنے کا نہیں تھا بلکہ میں نے اگلی صبح دو دن کیلئے اپنے بھائی کے پاس لاہور جانے کاپروگرام بنا لیا تھا۔ شہر سے باہر کمپنی کے طرف سے دیے گئے بڑے سے گھر کو آباد رکھنے کیلئے بھائی نے کچھ مرغیا ں بھی رکھ چھوڑی ہیں۔ کچھ خرگوش بھی ہیں ۔ آسٹریلین طوطوں کے بھی بیسیوں جوڑے ہیں۔ دودھ کیلئے ایک بھینس بھی ہے۔ لان میں جہاں پھولوں کی کیاریاں ہیں وہاں موسمی سبزیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔۔ دو دن اس کلینک کی روٹین سے دور رہوں گا توکھانسی کا بھوت خود ہی بھاگ جائے گا۔
شام کو کلینک سے فارغ ہو کر گھر جانے سے پہلے کچھ ضروری سامان لینے کی غرض سے قریبی بیکری کا رخ کیا۔ جیسے ہی بیکری کے اندر داخل ہوا ہوں۔ چھینکیوں اور کھانسی کا دورہ پر گیا۔ دکاندار کو مطلوبہ اشیا کی فہرست تھمائی اور تھوڑٰا جلدی کرنے کو کہا۔ میرے ساتھ ایک بزرگ کھڑے تھے مجھے مسلسل کھانستا دیکھ کر بولے کوئی دوا وغیرہ نہیں لی؟ میں نے مسکرا کو جواب دیا ۔ دوا تو بہت استعمال کی ہے لیکن بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے۔ بزرگ اپنے سامان کے بل کی ادائیگی سے فارغ ہوئے تو ا یک بار پھر میری طرف متوجہ ہوئے۔ اگر بر انہ محسوس کریں تو ایک مشورہ دوں ۔ یہاں چونگی نمبر ۵ کے پاس ہی ڈاکٹر مبشر کا کلینک ہے۔ ایک بار ان سے ضرور مشورہ کر لیں ۔ صبح ذرا دیر سے آتے ہیں ، رش کی وجہ سے شائد آپ کو کچھ انتظار بھی کرنا پڑے ۔ لیکں ان سے مل کر باہر نکلیں گے تو آدھے ٹھیک ہو چکے ہونگے۔ میں خود تو ان کے پاس کبھی نہیں گیالیکن میرا پورا خاندان ان کے پاس ہی جاتا ہے۔
ان بزرگوں کا مشورہ سن کر میں نے جلدی سے اپنا سامان سمیٹا اور گاڑی میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور دو موٹے آنسو میری آنکھوں سے بہہ کر میرے گالوں تک آگئے۔وہیں سے کلینک فون کیا ، میرا لاہور کا پروگرام کینسل ہو گیا ہے۔ راشد کے ہاتھ میری دراز سے ملیٹھی اور شہد کی بوتل مجھے گھر پہنچا دیں۔ میں جو پچھلے ایک ہفتے میں شخصی طور پر کھنڈر بن چکا تھا، گھر پہنچتے پہنچتے ایک مضبوط عمارت میں بدل چکا تھا۔۔میں نے محسوس کیا ہے کہ رات میری نیند بھی بہتر رہی ہے اور جب سے قلم پکڑ کر یہ تحریر لکھ رہا ہوں کھانسی کا ایک بھی دورہ نہیں پڑا
میم سین

No comments:

Post a Comment