Friday, January 4, 2013

قید

ہر لمحہ، ہر گھڑی
ایک خیال، ایک ہی منظر
نظروں کے سامنے گھومتا ہے
جیسے میں ہرن کا بچہ ہوں
جسے جنگل سے پکڑ کر
چڑیا گھر کی دیواروں میں قید کر دیا گیا ہو
چھوٹے چھوٹے بچوں کے ننھے منے قہقہے
خالی ڈبوں اور ضائع شدہ لفافوں کی بوچھاڑ
میں بھاگتا ہوں اور دوڑتا ہوں
پھر تھک کے بیٹھ جاتا ہوں
بے چینی ہے، بے تابی ہے
کب تک یہ قہقہے سنتا رہوں گا
جو میں خود سے نہیں ،سننا چاہتا 
میم ۔سین

No comments:

Post a Comment