Monday, January 7, 2013

المیہ

معاشرہ نام ہے شعوری وجدان کا، الہامی اور روحا نی قوتوں کا، مذہبی پابندیوں کا ، فطری تسکین کا۔ معاشرہ جنم لیتا ہے جب ہم مقصدیت سے آگاہ ہو جاتے ہیں،رویوں میں بے ساخنگی آجاتی ہے، اخلاقی اقدار وضع ہو جاتی ہیں اور ہم ان روایات کے پاسداربن جاتے ہیں، اپنی مذہبی اور اخلاقی اقدار کے زمہ دارر بن جاتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں، ایسے بے شمار واقعات وقوع پذیرہوتے ہیں جو اس کی اقدار اور روایات کے خلاف ہوتے ہیں لیکن ہم ان کو(ٹے بو)قرار دے کر اپنی زباں بندی کر لیتے ہیں ہماری حقائق سے یہ چشم پوشی اندر ہی اندر معاشرے کودیمک لگادیتی ہیں۔میں نے کئی بار یہ سوچا کہ گھن کی طرح کھاتے ان  (ٹے بو )کو زیربحث لاؤں، لفظوں کے پردوں میں ہی سہی۔مگر میرے قلم نے میرا ساتھ نہ دیا۔لکھنا تو میں اس دن بھی چاہتا تھا۔جس دن ایک نوجوان جوڑا اپنے دوست کے توسط سے اپنے گناہوں کا بوجھ چھپانے کیلئے غلطی سے میرے پاس آگیا تھا۔لکھنا تو میں اس دن بھی چاہتا تھا جس دن یتیم ملیحہ میرے پاس آئی تھی، جو اپنے سگے ماموں کے ہاتھوں حاملہ ہو گئی تھی۔لکھنا تو میں اس دن بھی چاہتا تھا جب ہسٹریا کی مریضہ سمیرا نے انکشاف کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کسی مرد کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی سہیلی کے کے ساتھ گزارنا چاہتی ہے۔ لکھنا تو میں اس دن بھی چاہتا تھا جس دن چودہ سالہ علی زین نے ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ سے تنگ آکر خودکشی کر لی تھی کیونکہ وہ چالیس سالہ بیوہ رخسانہ کے بغیر زندہ نہیں رہنا چاہتا تھا۔لکھنا تو میں اس دن بھی چاہتا تھا جس دن شہر کے ایک معزز گھرانے کی اکلوتی بیٹی نے اپنے خاندان کی نامو س ر ات کی تاریکی میں گھر سے بھاگ کر ہمیشہ کیلئے دفن کر دی تھی۔لکھنے کو بیشمار موقع آئے لیکن میں بھی اسی معاشرے کا حصہ بنا رہا، عام لوگوں کی طرح سڑک کنارے تڑپتے شخص کو دیکھ کر ہمیشہ خاموش گزرتا رہا۔ہمارے معاشرے کے کل کے یہ (ٹے بو)  آج عفریت بن چکے ہیں۔اور ہمارا بے حس معاشرہ ان کا سامنا کرنے سے آج بھی گریزاں ہے۔ ہماری مذہبی وابستگیاں اور دینی حمیت تو اسی دن عیاں ہو گئی تھی جب بغداد میں جلتے جسموں کی تپش پاکستان میں بیٹھا مسلمان محسو س نہیں کر سکا تھا۔جب کابل میں رقص کرتی موت کے مناظردیکھ کر ، ہمارے دلوں میں ہیجان برپا نہیں ہوئے تھے۔ہماری معاشرتی اقدار کس قدر کمزور ہوچکی ہیں شائد ہمیں اس کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں ہے۔کسی کمزور چھت کے نیچے کھڑے ہو کر بڑی بڑی گاڑیوں کو سڑکوں پر رواں دیکھتے ہوئے مغربی اقدار پر طعنہ زن آج اپنی ہی غیر ت و حمیت کا جنازہ اٹھا رہے ہیں۔میں اس دن اپنی آنکھوں کی نمی سنبھال نہیں سکا تھا جس دن میں نے ایک کنال کے گھر میں دو بھائیوں کے بوڑھے اپاہج باپ کو ملازموں کے ہاتھوں بے بسی کی تصویر بنے دیکھا تھا۔ رویا تو میں اس دن بھی بہت تھا جس دن ایک شخص اپنی بوڑھی ماں کو میرے پاس لیکر آیا تھا اور کہا تھا کہ اسے کوئی کوئی ایسی دوا دیں،یہ ٹھیک ہو جائے یا کوئی دعا کریں یہ میرے باپ کے پاس پہنچ جائے۔بچے اب سکول جانے لگے ہیں روز روز دفتر سے چھٹی نہیں ملتی ہے۔ آنکھیں تو میری اس دن بھی چھلک پڑی تھیں جس دن اونچی کو ٹھی میں قیمتی کپڑوں میں ملبوس عورت کی متعفن ساس کو مردہ قرار دیا تھا۔شتر بے مہار معاشرے کی گرتی اخلاقی اقدار کا زمہ دار کس کو ٹھہراؤں۔اس باپ کی لا پرواہی کو ،جس کے سامنے موبائل پر میسج کی گھنٹی بجنے پر بیٹی دستر خوان سے اٹھ جاتی ہو۔ یا اس ماں کی سادگی کو جس کا بیٹا ساری ساری رات نوٹس لینے کیلئے فون پر مصروف رہتا ہو۔میں الزام ان والدین کو کیوں نہ دوں جو راہ چلتے مغربی لباس کی کانٹ چھانٹ پہنے بیٹی کی طرف اٹھنے والی نظروں کے پیچھے غلیظ ذہنوں کی وجہ جان نہ پائے ہوں۔ میں کس کو الزام دوں، ان نوخیز ذہنوں کو جن کو ٹی وی سکرین پر نمودار ہونے والی اداکاراؤں کی مصنوئی مسکراہٹ اور نت نئے فیشن تو نظر آتے ہیں مگر مصنوئی روشنیوں میں یر غمال عورت کے پیچھے نادیدہ قوتوں کی پہچان نہیں ہے۔آج میں برق گراتی تہذیب اورجاں بلب ثقافت کا لہو کس کے ہاتھوں پر ڈھونڈوں؟۔ میری لب کشائی کس کام کی؟ ہم کب تک اپنی تمناؤں اور خواہشوں کے انبار لئے اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتتے رہیں گے؟ آج ہم اس معاشرتی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑے ہیں جو ہوا کے ایک جھونکے سے گر جائے گی۔ ہماری تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی روایات اس قدر کمزور ہو چکی ہیں کہ کسی دیمک زدہ الماری کی طرح کسی دن اپنے ہی بوجھ کے نیچے دب جائیں گی۔
میم ۔ سین

No comments:

Post a Comment