Wednesday, January 23, 2013

میرے قلم سے۔۔پارٹ ٹو

اپنے کلینک پر رونما ہونے والے واقعا ت و مشاہدات پر مبنی ’’ میرے قلم سے ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھے گئے مضمون کے بعد بہت سے دوستوں نے یہ سلسلہ جاری رکھنے کی فرمائش کی۔اور کہا کہ گاہے بگاہے اپنی ان یادشتوں کو قلم بند کرتا رہا کروں۔ تو اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کچھ مشاہدات کو قلم سے کاغذ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے
جس دن لطیفاں مائی کو اکڑے جسم، ٹیڑھے منہ،رال میں بھیگے ہونٹوں اور آسمان کی طرف دیکھتی ساکت نظروں کے ساتھ میرے پاس لایا گیا تو ایک لمحے کیلئے تو مجھے بھی یوں لگا کہ موت کا فرشتہ کہیں قریب ہی انتظار کر رہاہے۔ ساتھ ایک جمِ غفیر تھا،کوئی سورہ یاسین پڑھ کر پھونکیں مار رہا تھا تو کوئی تسبیح کے دانے گرا کروظیفہ کر رہا تھا لیکن  سب میں مشترک بات یہ تھی کہ سبھی مائی کی موت کی آسانی کیلئے دعا کر رہے تھے۔ضروری معائنے کے بعدمجھے اندازہ ہوگیا کہ مریضہ سائکو ہے اور ساری کیفیت خود ساختہ ہے۔کچھ ذہنی سکون کی ادویات اور کچھ  ٹوٹکے  بھی برتے   لیکن مریضہ کچھ ایسی ڈھیٹ واقع ہوئی کہ کسی حربے کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ جب اس کی گلے سے نکلتی کراہ او ر لوگوں کی بے چینی ناقابل بردا شت ہو گئی تو تو میں نے اپنے ڈسپنسر راشد کو بلایا اور  کہا اس کے بازو پر پانی کے ٹیکے لگانے شروع کر دو۔ ابھی پہلا ٹیکہ ہی لگا تھا کہ لطیفاں مائی چیخ مار کر اٹھ کر بیٹھ گئی اور حیرانی سے ارد گرد جمع لوگوں کو دیکھنے لگی اتنا ہجومِ پریشاں دیکھ کر مائی نے سین دوبارہ دہرانے کا ناٹک شروع ہی کیا تھا کہ میں نے راشد کو آواز دی۔ میری آواز سنتے ہی اس نے آنکھیں کھول دیں اور ہاتھ جوڑ کربولی میں ٹھیک ہوں اور جوس ، بسکٹ کھا کر اپنی صحت یابی کا یقین دلایا۔ ہمراہ آئے بیسیوں لوگ اس زندہ معجزے کو دیکھ کر انگشت بنداں تھے ۔ زباں زد عام اس معجزاتی ٹیکے کا ذکر تھا اور اگلے کئی دن تک کلینک پر لقوے اور فالج کے مریضوں اور پیدائشی معذور بچوں کا ہجوم رہا ۔ اب بھی کبھی کبھا ر لوگ ٹیڑھا منہ سیدھا کرنے والا ٹیکہ لگونے آجاتے ہیں
فاطمہ کی شادی تو سمندری ہوئی تھی لیکن پہلے بچے کی پیدائش ماں باپ کے ہاں ہی ہوئی تھی جو پہلے مہینے ہی بیمار ہو کر میرے کلینک آگیا تھا۔ اس کے بعد بھی کئی بار آیاحتی کہ سسرال جانے کے بعد بھی بچہ جب بھی بیمار ہوا تو شفا میرے کلینک سے ہی ہوئی۔اس دن جب ٹیکسی پر نوجوان ،بیوی اور بچے کو لے کر آیا تو بڑی مایوسی میں بولا کہ اس بچے کو تو آپ کے علاوہ آرام ہی نہیں آتا سارے سمندری سے دوا لے لی لیکن اسے فرق نہیں پڑا ۔۔اگلے دن عورت  جب دوبارہ چیک کروانے آئی تو تو میں نے اسے سمجھایا کہ سمندری میں کئی اچھے ڈاکٹرہیں اور بچے کو وہاں دکھا لیا کریں ۔میرا خیال تھا کہ اب وہ میری طبی سوجھ بوجھ اور فہم کو ستائش کی نظر سے دیکھے گی اور میری قابلیت پر کوئی قصیدہ کہے گی مگر اس نے تو یہ کہ کر میری سوچ کا قلعہ مسمار کر دیا ’’ ویسے وہ کون سا مجھے میکے آنے دیتے ہیں اس بچے کی بیماری کے بہانے ،میں دو چار دن امی کے گھر رہ لیتی ہوں‘‘
بابا محمد یوسف اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے، شوگر کا مریض تھا ۔ میرے پاس جب بھی آتا اپنی کمزوری کا رونا روتا، جب شوگر چیک کی جاتی تو  وہ تین سو سے کم نہ ہوتی۔کھانے والی تمام ادویات کی ناکامی کے بعد جب میں نے بابا جی کو بتایا کہ اب تو انسولین کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے تو بابا جی نے سر پکڑ لیا اور کہنے لگے پرہیز بھی اتنا کرتا ہوں، سیر پر بھی باقاعدگی سے جاتا ہوں، دوائی میں بھی کبھی ناغہ نہیں کیا، اگر آپ کہیں تو قبض کیلئے ہڑوں کےمربعے کا استعمال ترک کر کے نہ دیکھوں؟۔۔۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر لوگوں کو جب چینی کا استعمال روکنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو وہ شکر پر شفٹ ہوجاتے ہیں
ساٹھ سالہ بلقیس بیگم نے جب اپنے پٹھوں کی کمزوری کی شکائیت کی تو میرے پوچھنے پر جواب آیا ، بچپن سے ہی ہے ۔ابھی بچپن کا لفظ سن کر اپنی مسکراہٹ روکنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ا نہوں نے مزید انکشاف کیا کہ جب وہ پانچویں میں پڑھتی تھیں تو انہیں ٹا ئیفائیڈ ہوا تھا ، میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کیا اس وقت ٹائفائیڈ ایجاد ہو گیا تھا؟۔ لیکن بلقیس بیگم نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا اسی لئے تو میری بیماری بگڑ گئی تھی کیونکہ میرا مرض کسی کی سمجھ میں جو نہیں آیا تھا
بیماری کے دوسرے دن بھی بچہ اکھڑے سانس کے ساتھ آیا تو بچے کے کپڑوں سے دھوئیں کی بو دیکھ کر میں نے ماں سے کہا کل آپ لوگوں کو کمرے میں کوئلے جلا کر رکھنے سے منع کیا تھا پھر بھی وہی غلطی کیوں دہرائی ۔ اس کی ماں فوراً بولی ’’ نئی جی ڈاکٹرصاحب تہاڈے کہن تے اسیں کولے نئیں بالے ۔۔لکڑاں بال کے کمرے وچ رکھیاں سن ( ہم نے کوئلے تو نہیں جلائے لیکن لکڑیاں جلا کر کمرے میں رکھی تھیں )‘‘
کچھ واقعات کی پی جی ریٹنگ ہوتی ہے اس لئے یہ مضمون پڑھنے والوں میں اگر کوئی غیر شادی شدہ ہے تو وہ مضمون کو یہاں مکمل سمجھے ۔ اگرچہ اس نصیحت کا کوئی اثر تو ہونے والا نہیں لیکن سینما کے باہر ’’ صرف بالغوں کیلئے ‘‘ کا بورڈ اور فلم شروع ہونے سے پہلے قومی ترانہ بجانے جیسی رسمی کاروائی تو ضروری ہے۔یا پھر اس قانون کا حوالہ استعمال کریں جس کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر افراد پر سگریٹ خریدنے پر تو پابندی ہے ، پینے پر نہیں۔
سخت گرمی کے موسم میں میاں بیوی میرے پاس آئے۔ بیوی کو الرجی کی شکائیت تھی دوائی لکھنے کے بعد میں نے دن میں تین چار بار نہانے کا مشورہ بھی دیا۔ مشورہ سن کر خاوند ہنس کر بولا ڈاکٹر صاحب آپ نے دن میں تین چار بارکہا ہے یہ تو اس گرمی میں بھی ہفتہ ہفتہ نہیں نہاتی۔ اس کی بات سن کر میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا جو اس کی سمجھ میں آیا یا نہیں لیکن میں یاد کر کے اکثر مسکرا پڑتا ہوں ’’ تو اس میں قصور تو تمہارا ہوا نا‘‘
بابا فضل کو اس کا بیٹا کمر درد کے ساتھ لایا تو چیک اپ کے بعد دوئی کی پرچی لیکر باپ بیٹا کمرے سے چلے گئے تو تھوری دیر بعد بیٹا کمرے میں دوبارہ داخل ہوا اورکہنے لگا ڈاکٹر صاحب ابا جی کی بیماری کے بارے میں کچھ حقیقت کرنا تھی میں نے کہا بتاؤ تو کہنے لگا ’’ شادی تو پچھلے مہینے میری ہوئی ہے ۔بڑھاپے میں اب اماں ابا کی عمر اجازت نہیں دیتی اور صحت بھی وہ نہیں رہی ۔کمر میں تکلیف ہی ہوگی نا ، کچھ آپ ہی ان کو سمجھائیں‘‘
ہمارے ہاں دیوروں پر لکھے اشتہاروں، ٹی وی اور دوسرے میڈیا کے ذریعے بنائی گئی ذہنی پستی کی فضا نے ہمارے نوجوانوں کو کس قدر متاثر کیا ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک نوجوان کو جس کی ایک ہفتے بعد شادی تھی اور پچھلے تین دن سے پیٹ درد اور الٹی کی شکائیت سے سرکاری ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد بھی اس کی طبیعت نہ سنبھلی تو میرے پاس لایا گیا۔ تمام رپورٹیں بھی نارمل تھیں اور بظاہر صحت اور علامتوں میں تعلق بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ باپ کو اس کی جلد صحت یابی کی فکر اس لئے بھی تھی کہ لڑکی والے انگلینڈ سے آئے تھے اور تاریخ التوا میں نہیں ڈالی جا سکتی تھی۔ جب میں نے واضح لفظوں میں بتایا کہ مجھے تو لڑکے کی بیماری سارا ڈرامہ لگ رہا ہے تو اس کے ایک دوست نے دفتر میں آکر تصدیق کی آپ کی بات صحیح ہے، وہ حکیم صاحب سے شادی کورس کر رہا ہے ا ور ابھی حکیم ٖصاحب نے اجازت نہیں دی اور اس کے باپ نے بغیر مشورہ کے تاریخ بھی طے کر دی ہے۔ 
بارات جیسے ہی واپس لوٹی امجد صاحب سب سے دامن چھڑا کر میرے پاس گھر پر آگئے اور کہنے لگے کوئی اچھی سی دوا دو۔ کچھ سمجھانے کی بحث سے بچتے ہوئے گھر سے بسکوپین کی دو گولیاں پتے سے نکال کر اسے لا کر دیں اور کہا اسے دودھ کے ساتھ استعمال کر لینا۔ اس گولی نے کیا افادیت دکھائی اس کا اندازہ چند دن بعد رات کو ایک سجے سجائے نوجوان کو اپنے گھر کے دروازے پر موجود پا کر ہوا جس نے کہا آپ کو امجد صاحب کا فون تو آیا ہی ہوگا ۔ ۔۔۔ 

No comments:

Post a Comment