Thursday, January 17, 2013

نوحہ


مجھے نہیں خبر کہ اس انقلاب کے نعرے کے پیچھے کون سے ہاتھ ہیں؟۔ میں یہ بھی نہیں جاننا چاہتا کہ اس انقلاب سے کون سے مقاصد حاصل کئے جانے ہیں؟۔میں اس بحث میں بھی نہیں پڑنا چاہتاکہ اس ساری تگ ودو میں کتنے ارب لٹا دیے گئے؟۔ میں اس بات سے بھی پریشان نہیں ہوں کہ اس سارے کھیل سے روزانہ کتنے لوگ متاثر ہو رہے ہیں؟ میں تو اس بات میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا اس ڈرامے کا سکرپٹ رائٹر کون ہے، ہدایت کار کون ہے اس کیلئے اداکار کہاں سے لائے گئے ہیں۔؟؟ مجھے یہ سب معلوم بھی ہو گیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔لیکن انقلاب کا یہ نعرہ اگر آج ناکام ہو گیا تو کیامیری قوم سے چھینا گیا، ’’قیادت اور انقلاب‘‘ کے نعرے کا اعتماد اسے واپس مل سکے گا؟ کیا ملک کی اساس کو لگی دھجیاں پیوند لگوانے میں کامیاب ہوسکیں گی؟ کیا مذہبی جماعتیں دامن پر لگے اس سیاہ دھبے سے جان چھڑا پا ئیں گی؟ لاکھ تنقید کرو، تمسخر اڑاؤ لیکن دین کے نام پر لگا یہ زنگ اب تمہارا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ ہم نے ہمیشہ ملک عزیز کے دینی تشخص کا دفاع اپنی ذات سے بڑھ کر کیا ، اشتراکیت کی تپتی دھوپ تھی یا کمیو نزم کا فلسفہ، گرم پانیوں کا تعا قب کرتا سرخ ریچھ کا دور تھا یا مغربی ثقافت کی یلغارکے سامنے بند باندھنے کی بات۔ہمیشہ انگشت بنداں ، بے یقینی سے دوچارسوچوں کا سہارا بنے اس ملک عزیز کے نظریاتی بنیادوں کا تحفظ کیا۔ گھر کی بات ہے سر بازار گھر کی ناموس کا تماشہ کیوں بنائیں۔دین کے نام پر اٹھنے والی ہر تحریک کا دفاع کیا ، کہ یہ جس مکتبہ فکر سے بھی ہے ، اسلام کی بلندی کا سورج دیکھنا چاہتے ہیں۔ آج اگر یہ نئی صبحوں کے تعاقب میں ہیں توہم بھی ان آرزؤں میں پلے ہیں۔گزرے سالوں کی تلخ حقیقتوں کے بعد ، نئی رتوں کے تعاقب میں تھے۔جب ہم یہ سب نئے خواب دیکھ رہے تھے،تو مذہب کے لبادے میں ہم سے سب کچھ لوٹ لیا گیا۔ہم سفر میں بے سرو ساماں حیرت، سراسیمگی اور افراتفری کی فضا میں اس تذ بذب میں کھڑے ہیں کہ کہ سفر جاری رکھیں یا لوٹ جائیں ۔ مجھ سے میرے خوابوں کا حسن لوٹنے والے سے حساب کون لے گا۔میں تو خود کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہوں لیکن میرے محتسب سے کون حساب لے گا۔میرے پاس دل فراش باتوں کے سوا باقی کیا رہ گیا۔ا س قوم کی سلامتی کی دعائیں ، ملک کی بقا کی دعائیں، عافیت کی آرزوئیں کسی تذبذب کا شکار ہو گئی ہیں۔ایک احساس بیزاری ہے، اکتاہٹ ہے، مخمصوں کی قید تنہائی ہے۔ بے یقینی کی ایک لمبی قطار ہے۔بربادیاں نوشتہ دیوار کی تعبیر بن رہی ہیں۔میرے اندر بھنور چل رہے ہیں۔سوالوں کی ایک یلغا ر ہے۔اور میں برھنہ جسم ان کا مقابلہ کر رہا ہوں ایک مضطر ب جسم ہے، ایک بے چین روح ہے، ایک انتشار زدہ ذہن ہے۔
آ ج میں اپنے امید اور اعتماد کے لٹتے قافلوں کا حساب کس سے مانگوں۔ بستیوں کو بہانے آئے، دائیں بازو کے ملاؤں سے یا تمسخر اڑاتے بائیں بازو کے انٹلکچوئلز سے ۔میں اپنے دین کی سربلندی کے لئے لڑتے جوانوں کا ساتھ دوں یا غیروں کی اٹھتی ملامت کی انگلیوں کا جواب دوں۔ ٓج میں نئی روشنوں کے تعاقب میں سرگرداں سوچوں کا سہارا بنوں یا وضاحتیں کروں اپنے ہی گھر میں درانداز لٹیروں کی کاروائی کی ۔ آج میں خاموش ہوں ، میں اداس ہوں، کچھ مغموم بھی ہوں افسردہ بھی اور کچھ رنجیدہ بھی۔ میں بھی سوچتا تھا ایک دن میرے وطن میں وہ سنہری انقلاب آئے گا ، مساوات ، انصاف کا انقلاب، جہاں خدمت کا جذبہ عبادت گنا جائے گا، جہاں اخوت کی ندیاں بہنے لگیں گی،  ندامت کی پراگندہ فضا دھل جائے گی، جہاں مزدور کو اگر حق ملے گا تو سرکار اپنے فرائض کو پہچانے گی۔جہاں خوشے سے نکلا دانہ رحمت ہوگا۔غیرت کا اگر باراں ہوگا تو حمیت کے گھوڑے کی باگیں میرے لوگوں کے پاس ہونگی۔میرے پاس کچھ الم تھے،کچھ دکھ بھی تھے، میں غموں سے بھی دوچار تھا۔میرے پاس تفکرات کا بھی انبار تھا،کچھ تحفظات کا لحاظ بھی لیکن میرے پاس اجالوں کے سفر کا ایک خواب تھا، میرے پاس میری حسرتوں کا ایک دریچہ تھا۔ میرے بند کمروں میں ایک کھڑکی ابھی کھلی تھی
لیکن ڈاکٹر صاحب آ پ نے مجھ سے میرا بھرم ہی چھین لیا ہے۔میں کس سے اپنے خوابوں کا حساب مانگوں؟ کس کے ہاتھ پر اپنی حسرتوں کا لہو ڈھونڈوں ؟ کس سے مسیحائی چاہوں؟
میم ۔ سین

No comments:

Post a Comment