Monday, January 28, 2013

یقین

یہ ۱۹۹۹ کی بات ہے اپنے بڑے بھائی کی مدد سے ایک کمپیوٹر خریدا ۔ ایم ایم ایکس ۱۶۶ ، جس کے اندر ۶ ۱ ایم بی کی دور ریمیں لگی ہوئی تھی۔ ۱۶ ایم بی کی نئی ریم کوئی بارہ سے پندہ سو تک مل جاتی تھی اور تقریباً ساری تائیوان سے آتی تھیں۔ اسی سال آنے وا لے زلزلے میں ریم بنانے والی کمپنی کی تباہی کے بعد پاکستانی مارکیٹ میں ان کی قیمت دگنی ہو گئی تھی ۔

 ان دنوں سافٹ ویئر کی سی ڈی کی قیمت سو روپے اور اور ویڈیو سی ڈی اس سے بھی مہنگی ملتی تھی ۔ میرے سسٹم کی ہارڈ ڈسک کوئی ساڑھے سات سو ایم بی تھی۔جو کہ ناکافی تھی اور اسے جب اپ گریڈ کر کے اڑھائی جی بی میں تبدیل کیا تو کوئی اڑھائی ہزار روپے کا خرچہ ہوگیا تھا۔ابھی ہارڈ ڈسک کے پہنچائے گئے مالی صدمہ سے نہیں نکلا تھا کہ سسٹم کے بورڈ نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا۔جب ہر مکینک اسے صحیح کرنے میں ناکام ہو گیا تو وہ بھی نیا خر یدنا پڑا۔ یوں میں کوئی پانچ ہزار روپے کا مقروض ہوگیا۔
گھر سے اس فضول خرچی کیلئے مدد مانگنا ممکن نہ تھا۔ اور جھوٹ بول کر یا کوئی بہانہ لگا کر پیسے ہتھیانے کے ہنر سے میں بے خبر تھا۔فائنل ائر کے امتحان سر پر تھے اور میں قرض کی فکر تلے دبا ہوا۔ دوستوں نے جتنا تعاون کرنا تھا ، وہ انہوں نے کیا، لیکن زمانہء طالبعلمی کے تعاون کی بھی ایک حد ہوتی ہے ا ور اس دن جب سارے رستے بند پائے تو عصر کی نماز اپنے کمرے میں ادا کی اور گرگرا کراللہ کے سامنے سارے ہتھیار گرا دیے کہ اب سب کچھ تیرے حوالے۔ اگر تو میرا مسئلہ حل نہیں کرتا تو میرے پاس بھی اب کوئی او ر سہارا نہیں ہے۔ 
نماز سے فارغ ہونے کے بعد ایک د وست کو ضروری کال کرنے کی غرض سے ٹیلی فون بوتھ پہنچا۔ ابھی کریڈل ہاتھ میں تھاما تھا کہ نظر سامنے لگے ایک اشتہار پر پڑی۔ جس پر بچوں کیلئے ٹیوٹر کی مانگ کی گئی تھی ۔ ساتھ میں رابطہ نمبر بھی تھا گھر کا ایڈریس دیکھا تو فیصل ٹاؤن درج تھا یعنی جناح ہسپتال کے بالکل دوسری جانب ۔ یہ سوچ کر کہ ہزار روپے بھی مل گئے تو موقع اچھا ہے ۔ کوشش کر کے دیکھ لیتے ہیں اور دوست کی بجائے اشتہار پر درج نمبر ڈائل کر دیا۔ایک بارعب آواز نے فون اٹھایا اور بالمشافہ ملنے کو کہا۔ ملنے کا وقت طے پا گیا۔میٹرک کی ایک لڑکی او ر اسکے او لیول کے بھائی کو روزانہ ایک گھنٹہ وقت دینا تھا۔ معاملات طے پا گئے تو بولے کتنی فیس لو گے ابھی میں کچھ کہنہ ہی چاہتا تھا وہ صاحب بولے اڑھائی ہزار سے زیادہ میں نہیں دے سکتا۔ اس سے زیادہ لے کر میں کرتا بھی کیا۔ فوراً ہاں کر دی۔
 دو ماہ بعد جب قرض کی ادائیگی سے فارغ ہوا تو۔زندگی کے اس کمزور موڑ پر دعا کی قبولیت جس انداز میں ہوئی اس نے ہمیشہ کیلئے میرے ہاتھوں میں اپنے رب پر یقین کا اسم اعظم تھما دیا ۔
اور یہ اسم اعظم آج بھی میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ یہ تو اتنی آسانی سے قبول ہوجاتی ہیں تو پھر لوگ کیوں شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں داخل دفتر ہوجاتی ہیں۔ ہمْ اپنے رب سے ما نگ تو رہے ہوتے ہیں مگر شک کی نظر سے۔ دعا تو کرتے ہیں لیکن ہمیں اپنے رب کی قدرت پر یقین نہیں ہوتا ، اس کی صلاحیتوں پر شک ۔ اس کے اثر و رسوخ پر شک۔
جو ہستی کروڑوں اربوں کہکشائیں تخلیق کر کے ان میں اربوں ستاروں کی ترتیب قائم رکھ سکتی ہے ۔ جو ہستی دو خلیوں کو ملا کر کھربوں خلیوں کے انسان میں ڈھال سکتی ہے۔کیا اس کی قدرت پرپر شک ہوتا ہے؟ یا اس رب کی طاقت پر جو ایک چھوٹے سے بیج سے سو فٹ کا درخت کھڑا کر دیتا ہے۔، وہ رب جو پانی کو بہا کر پہاڑوں سے سمندروں تک پہنچاتا ہے اور پھر اس پانی کو دوبارہ سمندروں سے پہاڑوں تک پہنچا دیتا ہے۔ اس کی ربوبیت کے آثار ڈھونڈتے جاؤ اور اس کی عظمت کا سکہ دلوں میں کیسے نہیں بیٹھتا ؟ اگر دیکھنے والی آنکھ ہو تو کائنات کی ہر ہر چیز میں حسن وجمال نظر آئے گا ۔سبزہ ہو یا دریا، پہاڑ ہوں یا وادیاں ، بادل ہوں، سورج چاند ، ستارے ہوں۔ دھنک کے رنگ ہوں یا پھولوں کے۔پوری کائنات ایک حسن کمال کا شاہکار ہے۔ تو پھر اس تخلیقی شاہ پارے کے اصلی فنکار کے بارے میں کیا خیال ہے؟۔ فن پاروں کا یہ عالم ہے تو پھر اس فنکا ر کا اپنا عالم کیا ہو گا؟۔اس شعور اور اس کے تخلیقی ہنر کی داد اس کے اصل فنکار کو کیوں نہیں ملتی ؟ اس کی غائبانہ عظمت اور وجاہت کی دھاک ہمارے دلوں پر کیوں نہیں بیٹھتی؟۔
 پوچھو ان ستاروں سے سے جو رات کے اندھیروں میں روشنی پھیلاتے ہیں ، پوچھو ان دریاؤں سے سے جو ہزاروں فٹ کی بلندی سے بہتے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرتے ہیں ، پوچھو ان ہوا میں تیرتے پرندوں سے ، پوچھو آفتاب کی کرنوں سے وہ کس کی ثنا بیان کرتے ہیں وہ ذات کس قدر عظیم ہو گی ۔وہ ہستی کس قدر پرشکوہ ہوگی جو یہ سارے نظارے ڈھال رہی ہے۔کیا اس کائنات کی ترتیب یا اس کا تناسب کبھی خراب ہوا یا کبھی تبدیل ہوا ؟۔
یہ وہ عظیم ہستی ہے جو روز اول سے ہے اور روز آخر تک رہے گی۔ جو صاحب علم بھی ہے اور صاحب اختیار بھی۔ تو اس کی عظمت، بزرگی، قوت، طاقت اور قدرت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟ جب یقین ہے تو کامل کیوں نہیں ِ ؟ قبول نہ ہونے کے شک کا بیج کیوں؟ اپنے رب کے بارے میں انسانی طرز فکر کیوں؟ کہ شائد جیسے کسی بڑے افسر سے ملنے کیلئے کسی کی سفارش کی ضرورت ہو گی یا کسی چپڑاسی کی مٹھی گرم کرنا پڑے گی تو ہی کوئی بات بنے گی۔ اس زمین کو وجود میں آئے ساڑھے چودہ ارب سال ہو گئے ہیں ، تاریخ دان دس ہزار سال پہلے حضرت ٓدم کو ڈھونڈ نکالتے ہیں اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کو تو آئے ہوئے صرف چودہ سو سال ہوئے ہیں۔ تو اتنے سالوں تک اس کائنات کا نظام چلانے کیلئے ہمارے رب کا ہاتھ کون بٹاتا رہا ہے؟
 وہ تو بے نیاز ہے ، نہ کسی سے پیدا ہونے والا نہ کسی کو جنم دینے والا، نہ جس کو نیند آتی ہے نہ اونگھ، سنتا ہے اتنے قریب سے کہ ہماری شہ رگ بھی دور لگتی ہے، وہ کُن ،ابھی کہ نہیں پاتا اور کائناتیں وجود میں آجاتی ہیں ، جن کا نہ شمار ہے نہ کوئی حساب ہے ، وہ جو لامحدود علم کا مالک ہے تو پھر اس سے مانگنے کیلئے سفارش کیسی؟ ، قطار بندی کا انتظار کیوں؟ دعائیں تو التجائیں ہیں اپنے رب سے ۔جو خود  توکسی کا نہیں لیکن جس کی ساری کائنات محتاج ہے۔ مانگنے کا کوئی وقت نہیں ، مانگنے کی کوئی حد نہیں ، جب پریشان ہو تب بھی مانگو جب خوشحال ہو تب بھی مانگو وہ تو خوش ہوتا ہے مانگنے پر اور ناراض ہو جاتا ہے اگر کچھ اس سے نہ مانگا جائے۔
 لیکن جب مانگو تو ایسے کہ وہ اصرفتمہاری سن رہا ہے اور قبول کرے گا ۔اتنے یقین کے ساتھ ، جو اس بچے کو تھا جو نماز استسقا ادا کرنے گیا تو ساتھ چھتری بھی لے گیا تھا

میم ۔ سین

No comments:

Post a Comment